بے زبان جانوروں اور پرندوں کا درد سمجھنے والے ہمارے معاشرے میں کم ہی لوگ رہ گئے ہیں ورنہ آج کی مصروف زندگی میں کس کے پاس اتنا ٹائم ہوگا کہ وہ جانداروں کی دیکھ بھال کرے۔
مگر ایسا نہیں ہے کہ ایسے افراد سوسائٹی میں بالکل بھی موجود نہ ہوں، بے زُبان جانداروں کا درد محسوس کرنے والے افراد اور کچھ مخصوص اِدارے اس کام کے لیے سرگرم ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کو علم نہیں۔
آج ہم ایسے 2 بھائیوں کے بارے میں بات کریں گے جن کی پرندوں سے محبت کی کہانی بے مثال ہے اور انہوں نے خاص طور پر زخمی پرندوں کے لیے ایک اسپتال بھی قائم کیا ہوا ہے جس کے لیے ان کے والدین نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔
ان دونوں بھائیوں کے نام ندیم اور سعود ہے جن کا تعلق بھارت سے ہے۔ انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے رہائشی ان دونوں بھائیوں کی کہانی قابل دید ہے۔ کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ ندیم اور سعود نے ایک زخمی پرندے کو پتنگ کی ڈور میں لپٹے دیکھا جس کے پرزخمی ہوچکے تھے۔
یہ سب انہوں نے پہلی بار دیکھا تھا جس کے علاج کے لیے وہ اُس پرندے کو اٹھا کر اسپتال لے گئے مگر انتظامیہ نے یہ کہہ کر پرندے کے علاج سے اِنکار کر دیا کہ وہ گوشت خور پرندہ (چیل) تھا۔ اس طرح ان دونوں بھائیوں کے شہر کے کئی اسپتال کے چکر لگے اور سب نے یہی کہا کہ ہم گوشت خور پرندے کا علاج نہیں کرتے۔
بعد ازاں ندیم اور سعود نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ انہوں نے زخمی پرندوں کے لیے ایک ویٹر نری آپریشن سینٹر کا آغاز کیا جہاں ہزاروں زخمی پرندوں کی جان بچائی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے ندیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہم ان پرندوں کے زخموں اور اموات پر تحقیق کے ذریعے اُن کا بہتر علاج کرنے کی مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ ندیم کے مطابق ہم نے اب تک تقریباً 23 ہزار 500 پرندوں کی جانوں کو محفوظ بنایا ہے۔
ندیم مزید کہتے ہیں کہ پہلے تو اس کام کے لیے ہم اپنی جیب سے خرچہ کرتے تھے مگر خاندان اور خصوصاًوالدہ کا بھرپور سپورٹ حاصل تھا جس کے باعث اپنے کام کو آگے لے کر چلنے میں بھرپور مدد ملی۔
بھارتی شہری ندیم نے زخمی پرندوں کے علاج سے متعلق مزید بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہمارے پاس زخمی پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جس کے باعث کام میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ لیکن یہاں انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ندیم اور سعود نے کی جانب سے پہلی بار سال 2010 میں آفس رجسٹرڈ کروایا گیا اور چرند پرند کے علاج کے لیے عوام عطیات سے مدد لی گئی۔