پاکستان چین اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کے لیے چین کے نائب وزیرِاعظم ہی لائفنگ پاکستان میں موجود ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ کے خصوصی نمائندے اور کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے پولٹ بیورو کے رکن نائب وزیرِاعظم ہی لائفنگ 30 جولائی سے یکم اگست تک پاکستان کے دورے پر ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں میں سے انتہائی اہم ہے۔سال 2013 میں شروع ہونے والے اس میگا منصوبے کے بعد سے ٹرانسپورٹ، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔تاہم پاکستان کی معاشی مجبوریوں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی اہداف پر حملوں کے باعث بھی سی پیک پر کام تعطل کا شکار رہا۔اسلام آباد کی کوم سیٹس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر عظیم خالد کا کہنا ہے کہ سی پیک کے شروع ہونے کے دس سال بعد اس منصوبے کے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت چین کو بحیرہ عرب کے ساتھ جوڑنے کا بنیادی مقصد پورا نہیں ہو سکا جبکہ پاکستان مختصر مدت کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔حالیہ برسوں میں چین بھی اسلام آباد کے سب سے قابل اعتماد غیر ملکی شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کی۔گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ چین کے بینک نے پاکستان کے زمے 2.4 ارب ڈال کا قرض دو سال کے لیے رول اوور کر دیا ہے، پاکستان دونوں سالوں میں صرف سود کی ادائیگی کرے گا۔گزشتہ سال آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مثال ’ہمالیہ سے مضبوط، بحیرۂ عرب سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی‘ کے الفاظ میں بیان کی جاتی ہے۔علاوہ ازیں دنیا کے طویل ترین پہاڑی سلسلے قراقرم میں سیاچن گلیشیئر کے قریب پاکستان اور چین 596 کلومیٹر کی سرحد شیئر کرتے ہیں۔لیکن گہرے تعلقات کے ان دعووں کے باوجود متعدد رکاوٹوں کے باعث حالیہ سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے جس کا اثر سی پیک کے منصوبے پر بھی ہوا۔اقتصادی راہداری چین کے لیے بحر ہند تک رسائی کے لیے ایک پرکشش راستہ ہے، لیکن چینی کارکنوں کی حفاظت اور تحفظ بیجنگ کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔سی پیک چین کے انتہائی مغربی علاقے سنکیانگ کو گوادر کی سٹریٹیجک بندرگاہ سے جوڑتا ہے تاہم بلوچستان کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ سرمایہ کاری سے ہونے والی وسیع آمدنی سے مقامی لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔سی پیک منصوبوں پر ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے قبول کی ہے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی سکیورٹی اہلکار چینی مفادات کے خلاف خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تعینات ہیں۔اپریل 2021 میں، کوئٹہ میں واقع سیرینا ہوٹل پر پاکستانی طالبان نے حملہ کیا تھا جہاں چینی سفیر ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس واقعے کے چند ماہ بعد داسو ڈیم سائٹ پر عملے کو لے جانے والی بس میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں نو چینی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اسلام آباد نے دھماکے کی وجہ گیس کی لیکج بتائی تھی جبکہ چین نے اصرار کیا تھا کہ یہ ایک بم حملہ تھا۔چینی نائنب وزیراعظم کے دورے سے قبل ہی دارالحکومت اسلام آباد میں سی پیک کی دسویں سالگرہ کے بینرز اور ممالک کے جھنڈے آویزاں کیے گئے ہیں، جبکہ سکیورٹی ہائی الرٹ پر ہونے کی وجہ سے دو دن کی عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔