پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے تقریباً تین دن بعد الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں کے انتخابی نتائج روک دیے ہیں۔
پیر کو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج کو روکا گیا ہے۔ان میں راولپنڈی کے حلقے این اے 52، این اے 53، این اے 56 اور این اے 57، این اے 87 خوشاب، این اے 126 لاہور اور این اے 127 لاہور شامل ہے۔اس کے علاوہ پی پی 4 اٹک، پی پی 6 مری، پی پی 7 سرگودھا، پی پی 12 راولپنڈی، پی پی 15 راولپنڈی، پی پی 17 راولپنڈی، پی پی 43 منڈی بہاؤالدین، پی پی 53، پی پی 121 ٹوبہ ٹیک سنگھ، پی پی 133 ننکانہ صاحب اور پی پی 279 لیہ کے بھی انتخابی نتائج روک دیے گئے۔دوسری جانب نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، عبدالعلیم خان، خواجہ آصف، عطا تارڑ، سیف الملوک کھوکھر سمیت 20 حلقوں سے کامیاب امیدواروں کے نتائج لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیے گئے۔پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔لاہور سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 145 سے انجینیئر یاسر گیلانی نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں انتخابی نتائج کو چیلنج کر دیا ہے۔ملتان کے حلقہ این اے 148 سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کا فائنل نوٹیفکیشن رُکوانے کے لیے مخالف امیدوار بیرسٹر تیمور نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔پاکستان تحریک انصاف کے این اے 58 چکوال سے حمایت یافتہ امیدوار ایاز امیر نے بھی انتخابی نتائج کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے سیکریٹریٹ آنے والے افراد اور سائلین کی رہنمائی اور سہولت کے لیے چار کاؤنٹرز قائم کر دیے ہیں۔ہر صوبے سے درخواستیں وصول کرنے کے لیےعلیحدہ کاؤنٹر بنائے گئے ہیں۔ یہ چاروں کاؤنٹرز کمیشن کی عمارت کے سامنے قائم کیے گئے ہیں۔