کیا مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھل رہی ہے؟

image
جمعرات کی شب پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی  پیش رفت اس وقت ہوئی جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سخت حریف مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2022 میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی۔

اس انٹرویو کے نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد تحریک انصاف کا ایک وفد سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان سے ملنے گیا اور تقریبا ایک گھنٹے تک مولانا اور ان کی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پرمشاورت کرتا رہا۔

اس ملاقات کے بعد مولانا کے قریبی ساتھی حافظ حمداللہ اور پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس بارے میں دونوں کا موقف ایک ہے۔

مولانا کے سنسنی خیز انٹرویو، اس کے بعد دونوں جماعتوں کے وفود میں ہونے والی ملاقات اور میڈیا سے گفتگو میں انتخابات کے بارے میں متفقہ موقف اپنانے کے عمل کو سیاسی مبصرین ایک نئی جہت قرار دے رہے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان برف پگھلنے کا سبب بن سکتی ہے۔

تاہم سینیئر تجزیہ نگار اور صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ آج کی ملاقات سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوا ہے۔

’پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس ملاقات کی ضرورت کیا تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جے یو آئی سے ملنا ہے تو پی پی پی سے ملنے میں کیا قباحت ہے۔

ایک سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی آج کی ملاقات مستقبل میں کسی مشترکہ لائحہ عمل پرمنتج ہو سکتی ہے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ قربت دیرپا ثابت ہوگی۔ ’جے یو آئی اور اور پی ٹی آئی مل بھی جائیں تو اسمبلی میں کوئی تبدیلی یعنی حکومت نہیں بناسکتے۔‘

’دوسری بات یہ ہے کہ جے یو آئی کا موقف اور احتجاج ہی اس بات پر ہے کہ ان کی سیٹیں خیبر پخونخوا میں ان سےچھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی ہے۔‘

یہ ملاقات اور دونوں جماعتوں کا مشترکہ موقف اس لیے بھی اہم ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف دونوں نے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔

لہٰذا اگر دونوں جماعتیں اگلے مرحلے میں مشترکہ احتجاج اور پارلیمنٹ میں اتحاد بنانے پر رضامند ہو جاتی ہیں تو یہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کے لیے بھی سخت مشکلات کا باعث بن جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کل کی یہ دونوں متحارب جماعتیں اگر آج اکٹھی ہو گئیں تو نئی حکومت کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہو گا۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US