انسانوں کے خصیے یعنی ٹیسٹکلز اپنے جسم کے حساب سے کچھ دوسرے بندر نما جانوروں کے مقابلے میں کافی چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس فرق کی وضاحت سائنس دان ارتقا کے ذریعے کرتے ہیں۔ لیکن جسم کے کچھ اور حصے جیسے کہ ہماری ٹھوڑی آج بھی ایک پہیلی ہیں۔ یہ صرف انسانوں میں ہی کیوں پائی جاتی ہے؟
جن جانوروں میں نر و مادہ کے آزاد تعلقات ہوتے ہیں، ان کے نر کے خصیے بڑے ہوتے ہیں اور جہاں نر صرف ایک ہی مادہ کے ساتھ ہوتا ہے، وہاں خصیے چھوٹے ہوتے ہیںانسانوں کے خصیے یعنی ٹیسٹکلز اپنے جسم کے حساب سے کچھ دوسرے بندر نما جانوروں کے مقابلے میں کافی چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس فرق کی وضاحت سائنس دان ارتقا کے ذریعے کرتے ہیں۔ لیکن جسم کے کچھ اور حصے جیسے کہ ہماری ٹھوڑی آج بھی ایک پہیلی ہیں۔ یہ صرف انسانوں میں ہی کیوں پائی جاتی ہے؟
انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے جو کروڑوں سال میں آہستہ آہستہ تیار ہوا۔ ہمارے جسم کے مختلف حصے جیسے آنکھیں، بازو، دماغ اور جگر یہ سب ایک لمبے ارتقائی عمل کے ذریعے بنے ہیں۔ یہ عمل سیدھا نہیں بلکہ تھوڑا بے ترتیب اور تجرباتی تھا۔
لیکن آج بھی سائنس دان حیران ہیں کہ آخر ہمارا جسم موجودہ شکل میں کیوں اور کیسے آیا؟ جیسے ہماری ٹھوڑی اور خصیوں کا سائز دوسرے جانوروں سے اتنا مختلف کیوں ہے؟
انسانوں کے خصیے گوریلا کے مقابلے میں تین گنا بڑے ہوتے ہیں لیکن چمپنزی کے مقابلے میں پانچ گنا چھوٹے۔ ایسا آخر کیوں ہے؟
ارتقا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر جاندار کی بناوٹ کس طرح وقت کے ساتھ بدلی۔ اگر ہم درختوں کے ارتقائی کو سمجھ لیں تو یہ جان سکتے ہیں کہ مختلف جانوروں میں کون سی چیزیں کب اور کیوں شامل ہوئیں۔

انسان کیسے بنا؟
مثال کے طور پر انسان پہلے جانور تھے، پھر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار بنے اور پھر وقت کے ساتھ میملز (دودھ پلانے والے جانور) سے ہوتے ہوئے بندر نما جانداروں میں تبدیل ہوئے۔
ہم جن جانداروں کے ساتھ ان مختلف مراحل میں شریک تھے وہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ ہمارے جسم کے مختلف حصے کس ترتیب سے وجود میں آئے۔ جیسے کہ جسم اور آنتیں (جو جانوروں کی ابتدائی خصوصیات ہیں) ریڑھ کی ہڈی اور بازوؤں سے پہلے بنیں۔ پھر میملز کے دور میں دودھ پلانا اور جسم پر بال آئے(جو میملز کی خاصیت ہے) اور پھر بندر نما جانداروں کے دور میں ناخن بنے۔
سائنس دانوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہمارا ہر جسمانی حصہ کیوں اور کیسے بنا۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب وہ خاص چیز مختلف جانداروں میں بار بار الگ الگ بن چکی ہو۔
ایسے بار بار ہونے والا ارتقائی عمل ’کنورجنس‘ کہلاتا ہے یعنی جب مختلف جاندار الگ الگ ارتقائی راستوں پر چلتے ہوئے ایک جیسی خصوصیت پیدا کر لیتے ہیں۔ یہ سائنس دانوں کے لیے تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے یہ اندازہ لگانا کہ کون سی انواع آپس میں رشتہ دار ہیں، الجھن کا باعث بن جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پہلے سائنس دانوں کو لگتا تھا کہ سویلوز یعنی ابابیل اور سوفٹس یعنی تیز پرواز پرندے، ایک ہی خاندان کے پرندے ہیں۔ لیکن اب ڈی این اے اور ان کے جسمانی ڈھانچے پر کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ابابیل دراصل الوؤں کے زیادہ قریبی رشتہ دار ہیں، نہ کہ تیز پرواز پرندوں کے۔
ارتقائی عمل میں سائز کی بہت اہمیت ہے
انسان پہلے جانور تھے، پھر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار بنے اور پھر وقت کے ساتھ میملز (دودھ پلانے والے جانور) سے ہوتے ہوئے بندر نما جانداروں میں تبدیل ہوئے۔ارتقائی عمل میں کنورجینٹ ایوولوشن یعنی ’مماثلت کا بار بار پیدا ہونا‘ اس وقت بہت مددگار ثابت ہوتا ہے جب ہم اسے قدرتی تجربے کے طور پر دیکھیں۔
آسان مثال خصیوں کے سائز کی ہے۔
ایتھوپیا کے کالے اور سفید کولوبس بندر اور کیپچن مکاک بندر جسامت میں ایک جیسے ہیں لیکن ان کے خصیوں کا سائز بالکل مختلف ہے۔ کولوبس بندر کے خصیے صرف تین گرام کے ہوتے ہیں جب کہ مکاک بندر کے خصیے 48 گرام تک وزنی ہو سکتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی ایک بڑی وجہ شاید ان کے جنسی رویے ہیں۔
کولوبس بندر کے نر کا اپنی ماداؤں پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور صرف وہی ان سے ملاپ کرتا ہے۔ اس لیے اسے تھوڑا سا نطفہ (سپرم) بنانا بھی کافی ہوتا ہے۔
لیکن مکاک بندر ایک ایسے گروہ میں رہتے ہیں جہاں ہر نر اور ہر مادہ ایک دوسرے سے ملاپ کرتے ہیں۔ یہاں مقابلہ سپرم کا ہوتا ہے یعنی جس نر کے خصیے زیادہ اور بڑے ہوں گے، وہ زیادہ سپرم بنائے گا اور اس کے بچے ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ مکاک کے خصیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصول دوسرے جانوروں پر بھی لاگو ہوتا ہے؟
کنورجینٹ ایوولوشن ہمیں بتاتی ہے کہاگر ہم ممالیہ کا جائزہ لیں تو ہمیں بار بار یہ پیٹرن نظر آتا ہے: جن جانوروں میں نر و مادہ کے آزاد تعلقات ہوتے ہیں، ان کے نر کے خصیے بڑے ہوتے ہیں اور جہاں نر صرف ایک ہی مادہ کے ساتھ ہوتا ہے، وہاں خصیے چھوٹے ہوتے ہیں۔
مثلاً سلور بیک گوریلا کا صرف اپنے حرم پر کنٹرول ہوتا ہے اس لیے اس کے خصیے چھوٹے ہوتے ہیں۔ چمپنزی اور بونوبو آزاد جنسی تعلقات رکھتے ہیں اور ان کے خصیے بڑے ہوتے ہیں۔
ڈالفن کے خصیے تو اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے جسم کے وزن کا چار فیصد تک ہوتے ہیں۔ انسانوں میں یہ تقریباً تین کلو کے برابر ہوگا۔
اور انسانوں کی بات کریں۔۔ تو ہمارے خصیوں کا سائز درمیانہ ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی اور جانور کے چہرے پر ٹھوڑی نہیں ہوتیانسانوں کی ٹھوڑی کہاں سے آئی؟
انسان کی ٹھوڑی ہمیشہ سے سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ رہی ہے۔ یہ صرف انسانوں میں کیوں ہوتی ہے اور آخر یہ بنی کیوں؟
جیسے خصیوں کے سائز کے بارے میں کئی نظریے ہیں، ویسے ہی ٹھوڑی کے بارے میں بھی کئی ممکنہ وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں جب انسان ہاتھا پائی کرتے تھے تو ٹھوڑی نے جبڑے کو مضبوط بنانے میں مدد دی ہوگی۔
کچھ کہتے ہیں کہ یہ مردوں کی داڑھی کو نمایاں کرنے کے لیے بنی تاکہ وہ زیادہ دلکش نظر آئیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب انسانوں نے کھانا پکانا شروع کیا اور نرم غذا کھانے لگے تو جبڑا کمزور ہوتا گیا اور ٹھوڑی صرف ایک بچا ہوا حصہ رہ گئی جس کا اب کوئی خاص کام نہیں رہا۔
لیکن خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی اور جانور کے چہرے پر ٹھوڑی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ ہمارے قریبی رشتہ دار، نیندرتھالزیا قدیم انسانوں (ہمارے ارتقائی دور کے قریبی رشتہ دار) کے چہروں پر بھی نہیں۔
چونکہ ٹھوڑی صرف موجودہ انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے اور یہ ارتقائی عمل میں کسی اور جاندار میں دوبارہ نہیں بنی، اس لیے سائنسدان اس کی اصل وجہ کو ٹھیک سے جانچ نہیں سکتے۔
شاید انسانی جسم اور فطرت کے کچھ راز ہمیشہ راز ہی رہیں گے۔