اگرچہ عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ ان کے لیے کتنا کھانا کافی ہے لیکن وہ کھاتے وقت کتنا کھاتے ہیں اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے۔
ہمارے کھانے کی مقدار کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم جس پلیٹ میں کھا رہے ہیں وہ کتنی بڑی ہےاگر ہم پلیٹوں میں پیش کیے جانے والے کھانے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں میں ہمارے کھانے کی اوسط مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ اُن کے لیے کتنا کھانا کافی ہے، لیکن وہ کھاتے وقت کتنا کھاتے ہیں اس کا انحصار بہت سے عواملپر ہے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
ہمارے کھانے کی مقدار کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم جس پلیٹ میں کھا رہے ہیں وہ کتنی بڑی ہے۔
اس کے علاوہ اگر ہمیں کھاتے وقت زیادہ کھانا پیش کیا جاتا ہے تو یہ بھی ہمارے زیادہ کھانے کی ایک وجہ ہے۔
بہت سے محققین نے اس بات کا مطالعہ کیا ہے کہ ہم کن حالات میں زیادہ کھاتے ہیں اور اس کا ہماری صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ہم کب کب زیادہ کھاتے ہیں؟
ریستورانوں اور ہوٹلوں میں آج کل زیادہ مقدار میں کھانے دیے جاتے ہیںلیڈز یونیورسٹی میں بھوک اور توانائی کے توازن کے ماہر پروفیسر جیمز سٹبس بتاتے ہیں کہ ’جب لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں تو ان میں ایسی چیزیں کھانے کی عادت پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ زیادہ مقدار میں ایسی خوراک کھانے کے بُرے نتائج ہو سکتے ہیں۔‘
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ہمارے زیادہ کھانے کی اصل وجہ کیا ہے۔ لیکن پرکشش مارکیٹنگ اور پری پیکڈ فوڈ پر ہمارا بڑھتا انحصار اس کی وجوہات میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ریستوران اور ہوٹلوں کی جانب سے ’ویلیو فار منی‘ کھانے کی پیشکش اور بڑی پلیٹوں میں کھانا پیش کرنا بھی ہمیں زیادہ کھانا کھانے کی ترغیب دیتا ہے۔
بی ڈی اے یعنی برٹش ڈائیٹک ایسوسی ایشن کی ترجمان اور خوراک کے ماہر کلیئر تھورنٹن وُڈ کا کہنا ہے کہ ’1970 کی دہائی میں اوسط پلیٹ کا سائز 22 سینٹی میٹر تھی، اب یہ 28 سینٹی میٹر ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے کھانے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس کے علاوہ، ریستوراں بھی زیادہ کھانا پیش کر رہے ہیں۔ لوگ اس بارے میں الجھن کا شکار ہیں کہ کیا انھیں گھر میں بھی ایسا کرنا چاہیے۔‘
ہمیں عام طور پر کتنا کھانا چاہیے؟
ہر کسی کے لیے کھانے کی کوئی اوسط مقدار متعین نہیں کی جا سکتیہمارے کھانے کی مقدار کا انحصار بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے، جیسا کہ ہماری عمر، جنس، وزن، قد اور جسمانی سرگرمیاں وغیرہ۔
اگر آپ سخت کام کرتے ہیں یا سپورٹس مین ہیں تو آپ کو زیادہ کھانے کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر آپ دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، یعنی آپ کی جسمانی سرگرمیاں زیادہ نہیں ہیں، تو آپ کو کم کھانے کی ضرورت ہو گی۔
وُڈ کے مطابق یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ دن بھر میں کتنی بار کھاتے ہیں اور کیا کھاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سمجھنے کا ایک آسان طریقہ ہے کہ ہمیں کتنا کھانا چاہیے۔ درحقیقت ہم اسے اپنی ہتھیلی سے جان سکتے ہیں۔‘
’آپ کی ہتھیلی کے برابر مٹن، آپ کے ہاتھ کے برابر چکن یا مچھلی، جتنی سبزیاں آپ دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر لے سکتے ہیں، آپ کے لیے اتنا ہی کھانا کافی ہے۔‘
اس کے علاوہ وہ دن بھر مٹھی بھر کاربوہائیڈریٹس (آلو، چاول، پاستا وغیرہ) اور مٹھی بھر پھل کھانے کا مشورہ بھی دیتی ہیں۔
سٹبس کا کہنا ہے کہ صحت مند خواتین کو روزانہ تقریباً دو ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے اور مردوں کو تقریباً ڈھائی ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی خوراک کی مقدار اسی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔
پروفیسر سٹبس کہتے ہیں کہ ’ہر شخص مختلف ہوتا ہے، اس لیے کھانے کی اوسط مقدار ہر ایک کی ضروریات کے لیے مناسب نہیں ہوتی۔ لیکن اگر لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں تو یہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی پسند کے کھانے کھائیں لیکن توازن کے ساتھزیادہ کھانے سے بچنے کے طریقے
وڈ کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ہر کسی کو ایک جیسی خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
’مثال کے طور پر اگر ایک خاندان کے افراد کو کھانا پیش کیا جا رہا ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کو ایک ہی مقدار میں کھانا دیا جائے، بلکہ کھانا ان کی ضروریات کے مطابق دیا جانا چاہیے۔‘
اس کے علاوہ کھانے کی مقدار کی پیمائش کے لیے چمچہ کا استعمال بھی صحیح طریقہ ہو سکتا ہے۔
ایک صحت مند غذا کا انحصار صرف اس بات پر نہیں کہ آپ کتنا کھاتے ہیں، بلکہ اس پر بھی کہ آپ کیا کھاتے ہیں۔
وڈ کا کہنا ہے کہ پروٹین یا فائبر سے بھرپور کھانا کھانے سے آپ طویل عرصے تک پیٹ بھرا ہوا محسوس کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ پھلیاں اور سبزیوں کے ساتھ سوپ بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں پروٹین، فائبر اور پانی زیادہ ہوتا ہے۔
چکنائی میں کسی بھی دوسری غذا سے زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں، اور یہ آپ کو کھانے کے دوران بھی مطمئن محسوس کرا سکتی ہے۔
انھووں نے کہا کہ زیتون کے تیل، مچھلی، گری دار میوے اور بیجوں جیسے کھانے سے صحت مند چکنائی بھی محدود مقدار میں استعمال کرنے کے لیے اچھی ہے۔
سٹبس عام طور پر انتہائی پروسسڈ کھانے سے بچنے کی سفارش کرتے ہیں۔ تاہم، ان کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی پسندیدہ چیزوں کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سٹبس نے کہا: ’ہماری خوراک کا 80 فیصد صحت مند، کم کیلوریز والی غذائیں ہو سکتی ہیں، اور بقیہ 20 فیصد ہماری پسندیدہ غذا یا زیادہ کیلوریز والی غذائیں ہو سکتی ہیں۔‘
دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ کتنا کھاتے ہیں، بس متوازن مقدار میں کھائیں اور صحت مند رہیں۔