لسی، فروٹ واٹر یا پھلوس کا رس آپ کو ’فزی ڈرنکس‘ کا صحت مند متبادل لگ سکتا ہے لیکن سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ ’فروٹ ٹی‘ سمیت اس قسم کے مشروبات ہمارے دانتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق صحت افزا سمجھے جانے والی ڈرنکس بھی ہمارے دانتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیںلسی، فروٹ واٹر یا پھلوں کا رس آپ کو ’فزی ڈرنکس‘ کا صحت مند متبادل لگ سکتا ہے لیکن سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اِس قسم کے مشروبات ہمارے دانتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
تاہم، ان میں سب کچھ بُرا نہیں ہے. لندن کے کنگز کالج کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ ہماری پینے کی عادات اور طریقہ دانتوں کے خراب ہونے کو نمایاں طور پر روک سکتا ہے. میں نے اس ٹیم سے ملاقات کی تاکہ اپنے دانتوں پر یہ تجربہ کر سکوں۔
بچپن میں ہمیں ہمیشہ جہاں ’کیویٹیز‘ یعنی دانتوں میں بننے والے چھوٹے سوراخوں کے بارے میں خبردار کیا جاتا تھا وہیں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ کس طرح مٹھائیاں اور چاکلیٹ ہماری مسکراہٹ کو برباد کر سکتے ہیں۔
جب ہم میٹھے کھانے کھاتے ہیں تو ہمارے دانتوں پر بننے والے قدرتی بیکٹیریا منہ میں موجود چینی کے ذروں کو کھا جاتے ہیں جس سے ہمارے دانتوں میں سوراخ ہو جاتے ہیں۔ جب تک کہ یہ سوراخ بہت بڑے نہ ہوں، تب تک انھیں عام طور پر بھرا جا سکتا ہے۔
لیکن دانتوں کا ’بُھر جانا‘ مختلف چیز ہے۔ خوراک میں موجود تیزابی مادے دانتوں کی بیرونی پرت کو نشانہ بناتے ہیں اور آہستہ آہستہ اسے ختم کر کے دانت کی اندرونی تہہ کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔
اینمل دانتوں کی نرم تہوں کی حفاظت کرتا ہے لیکن یہ تیزاب اور شکر کے مسلسل اثرات کا دفاع نہیں کر سکتا اور ایک بار یہ تہہ ختم ہو جائے تو اس کے واپس آنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔
جب ہم میٹھے کھانے کھاتے ہیں تو ہمارے دانتوں پر بننے والے قدرتی بیکٹیریا منہ میں موجود چینی کے ذروں کو کھا جاتے ہیں اور دانتوں پر سوراخ کا باعث بنتے ہیںدانتوں کے بُھرنے یا خراب ہونے کے بارے میں کنگز کالج لندن کی تحقیقی ٹیم کے رکن اور ڈینٹل سرجن ڈاکٹر پولیووس چارالمبوس کا کہنا ہے کہ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ’دانتوں کا انیمل تیزابی اور میٹھے کھانوں اور مشروبات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو دانتوں کے مختلف امراض پیدا ہو سکتے ہیں جن میں دانتوں پر دھبے، فریکچر، دانتوں کے کناروں کا ٹوٹنا، سرد یا گرم حساسیت شامل ہیں۔'
دانتوں کو نقصان سے بچانے کے لیے کیا پیا جائے اور کب؟
ڈاکٹر پولیویوس نے میرے منہ میں تیزابیت کی پیمائش کے لیے پی ایچ میٹر کا استعمال کیا جبکہ میں نے نارنجی کا جوس تین مختلف طریقوں سے پیا۔ میں نے اس کا ایک گھونٹ بھرا، اسے منہ میں گھمایا اور نگلنے سے قبل کچھ دیر تک منہ میں ہی رکھا۔
دانتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے، منہ میں پی ایچ لیول تقریباً سات ہونا چاہیے۔
- کینو کا رس پینے سے پی ایچ 4.7 تک گر جاتا ہے، جبکہ اسے سات یعنی نیوٹرل سطح تک واپس آنے میں 18 سیکنڈ لگتے ہیں۔
- جوس کو منہ میں (10 سیکنڈ کے لیے) رکھنے سے تیزابیت میں اضافہ ہوا اور اسے معمول پر آنے میں پانچ گنا زیادہ وقت لگا۔
- جوس کو منہ میں گھمانے سے پی ایچ تین تک گر گیا اور اسے واپس آنے میں 30 گنا سے زیادہ وقت لگا۔
ڈاکٹر پولیویوس کہتے ہیں کہ دانتوں کی حفاظت کے لیے، تیزابی مشروبات کو زیادہ دیر تک اپنے منہ میں نہ رکھیںتجربے سے پتہ چلا کہ تیزابی مشروبات کو منہ میں رکھنے یا گھمانے سے دانتوں کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ یہ عادت تیزابی مشروب اور دانتوں کی سطح کے مابین رابطے کے وقت اور شدت میں اضافہ کرتی ہیں۔
ڈاکٹر پولیویوس کہتے ہیں کہ ’دانتوں کی حفاظت کے لیے، تیزابی مشروبات کو زیادہ دیر تک اپنے منہ میں نہ رکھیں. آپ دانتوں کے ساتھ رابطے کو کم سے کم کرنے کے لیے سٹرا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تحقیق اس بات کی تائید کرتی ہے کہ سٹرا کا استعمال فزی ڈرنکس پینے کی وجہ سے ہونے والے دانتوں کے کٹاؤ کو کم کرتا ہے۔
کنگز کالج لندن کی ٹیم نے دریافت کیا کہ دو کھانوں کے درمیانی وقفے میں تیزابی غذا اور مشروبات کا استعمال دانتوں کی خرابی کا سب سے بڑا خطرہ بنتا ہے.
جو لوگ ناشتے اور دن کے کھانے یا پھر لنچ اور ڈنر کے درمیان دن میں دو بار سافٹ ڈرنکس، لیموں کے ٹکڑے والے پانی یا پھلوں کے ذائقے والی گرم چائے پیتے ہیں، اُن کے دانتوں میں معتدل یا شدید کٹاؤ کا امکان 11 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
جب کھانے کے ساتھ ایسے مشروبات کا استعمال کیا گیا تو یہ شرح نصف رہ گئی۔ لہٰذا اپنے کھانے کے ساتھ یا اس سے فورا پہلے یا بعد میں مشروبات کے استعمال کا وقت متعین کر کے آپ اپنے دانتوں کی بہتر حفاظت کر سکتے ہیں۔
دانتوں کے لیے سب سے نقصان دہ مشروب
کنگز کالج کی ٹیم نے دانتوں کے کٹاؤ پر چار مختلف مشروبات کے اثرات کا موازنہ کینو کے جوس، کولا، آئیرن (لسّی) اور پھلوں والی چائے میں اینمل کے نمونوں کو ڈبو کر کیا۔
ایک گھنٹے کے بعد دیکھا گیا نقصان دو دن تک ان مصنوعات کے تین گلاس پینے کے برابر تھا۔ خوردبین سے لی گئی تصاویر میں نمونوں میں کٹاؤ کو ایک گہری لکیر کے طور پر دیکھا گیا۔
یہ نتائج حیران کن تھے: انیمل کو سب سے زیادہ نقصان فزی ڈرنکس نے پہنچایا، اس کے بعد باری آئی کینو کے رس، سرخ بیریز کی چائے کی اور آخر میں رہی لسّی جس کا اثر دانتوں پر سب سے کم تھا۔
ماہرین کے مطابق انیمل کو سب سے زیادہ نقصان فزی ڈرنکس نے پہنچایا، اس کے بعد باری آئی کینو کے رس، سرخ بیریز کی چائے کی اور آخر میں رہی لسّی جس کا اثر دانتوں پر سب سے کم تھادانتوں کے لیے سب سے نقصان دہ خوراک
تیزابی کھانے اور مشروبات دانتوں کے خراب ہونے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ زیادہ تر پھلوں میں کچھ سطح تک تیزابیت ہوتی ہے۔ رس دار پھل جیسے سنگترہ، کیلے اور خوبانی کے مقابلے میں زیادہ تیزابی ہوتے ہیں۔ تیزابی کھانے اور مشروبات کی دیگر مثالوں میں شامل ہیں:
- مرچ
- ٹماٹر اور کیچپ
- سرکہ اور اچار (خاص طور پر سیب کا سرکہ)
- پھلوں کا اسکواش
- پھلوں والا ذائقہ دار پانی- مثال کے طور پر اپنے پانی میں لیموں کا ایک ٹکڑا شامل کرنا
- ذائقہ دار چائے، بشمول بیری کی چائے، عرق گلاب اور ادرک اور لیموں
- زیادہ تر الکحل مشروبات
- سافٹ ڈرنکس (شکر سے پاک سافٹ ڈرنکس چینی سے میٹھے مشروبات کی طرح ہی مضر ہیں)
چیلنج یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے کھانے اور مشروبات آپ کی مجموعی صحت کے لیے اچھے ہیں اور اپنے دانتوں کو بچاتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہونے کے بھی طریقے موجود ہیں:
- اپنے منہ میں ایسڈ کو بےاثر کرنے میں مدد کے لیے کھانے کے اختتام پر پنیر، دہی یا دودھ جیسی کیلشیم سے بھرپور غذائیں شامل کریں۔
- لعابِ دہن کی پیداوار بڑھانے کے لیے شوگر فری چیوئنگم کا استعمال کریں جس سے آپ کے دانتوں کی حفاظت میں مدد ملتی ہے۔
- پھلوں کی چائے کی جگہ سیاہ چائے استعمال کریں جس سے دانتوں کا کٹاؤ کم ہوتا ہے۔
- ترش پھلوں کے بجائے کھیرے، پودینہ یا عرق گلاب کے ساتھ ذائقہ دار پانی پیئں۔
دانتوں کا کٹاؤ کتنا عام ہے؟
دانتوں کے ڈاکٹروں نے متنبہ کیا ہے کہ دانتوں کا بُھرنا دنیا بھر میں ایک بہت ہی عام مسئلہ بن گیا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
کنگز کالج لندن ڈینٹل انسٹیٹیوٹ کے پروستھوڈونٹکس کے سربراہ ڈاکٹر ڈیوڈ بارٹلیٹ کی سربراہی میں 2013 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق یورپ میں 18 سے 35 سال کی عمر کے تقریبا 30 فیصد بالغ افراد کو دانتوں کی درمیانی سے شدید خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے مقابلے میں چھ عرب ممالک میں ایک ہی عمر کے 2,924 افراد پر کیے گئے ایک حالیہ مطالعے میں دانتوں کے خراب ہونے کی شرح اور بھی زیادہ پائی گئی۔
یہ عمان میں سب سے زیادہ 60.7 فیصد، سعودی عرب (57.1 فیصد)، متحدہ عرب امارات (49.3 فیصد)، مصر (32.9 فیصد)، کویت (31.5 فیصد) اور اردن (16.5 فیصد) تھی۔
ماہرین کے مطابق دانتوں کے کٹاؤ کا عمل آپ کی پوری زندگی جاری رہتا ہے تاہم، اگر آپ محتاط نہیں ہیں، تو غذا، عادات، یا طبی حالات (مثلاً ایسڈ ریفلکس) جیسے عوامل اس عمل کو تیز کرسکتے ہیں.
دانتوں کے ڈاکٹر ایک گائیڈ کا استعمال کرتے ہوئے آپ کے نقصان کا اندازہ لگا سکتے ہیں. نتائج تشویش کا سبب بن سکتے ہیں ، کیونکہ انیمل کو دوبارہ بنانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے لہٰذا احتیاط ہی بہترین چیز ہے۔