گیس نہیں لیکن نئے کنکشنز ملیں گے، حکومت کیا کرنے جا رہی ہے؟

image
پاکستان کی وفاقی حکومت کافی عرصے سے بند گیس کنیکشنز کی دوبارہ بحالی پر غور کر رہی ہے۔ اردو نیوز کو ملنے والی معلومات کے مطابق وزارت خزانہ کی تجویز پر وزارت پیٹرولیم نے ایک پروپوزل وزیراعظم آفس کو ارسال کیا ہے جس میں ملک بھر میں نئے گیس کنیکشنز کھولنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اس تجویز کی اگرچہ تاحال باضابطہ منظوری نہیں دی گئی تاہم حکومتی منصوبہ یہ ہے کہ درآمدی گیس کو مقامی گیس کے ساتھ ملا کر صارفین کو درمیانی قیمت پر گیس فراہم کی جائے تاکہ ملک کے تیل و گیس کے شعبے کو اقتصادی استحکام حاصل ہو۔

اس سلسلے میں اردو نیوز نے وزارت پیٹرولیم اور سوئی گیس کمپنیوں سے رابطہ کیا جن کے اعلیٰ حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ تجاویز موجود ہیں لیکن حتمی فیصلہ وزیراعظم کی منظوری سے مشروط ہے۔  حکام نے واضح کیا کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں گیس کے ذخائر پہلے ہی کم ہو رہے ہیں تو نئے کنیکشنز کیسے دیے جائیں گے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس کنیکشنز کی بحالی پر غور کرنے کی ایک بڑی وجہ سسٹم میں وقتی طور پر گیس کی بہتری ہے۔

ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں ملک میں گیس کی طلب اور رسد میں کچھ توازن پیدا ہوا ہے، جس کے باعث بعض درآمدی ایل این جی کارگو بھی منسوخ کرنا پڑے ہیں۔

دوسری جانب اردو نیوز کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت عوامی دباؤ اور ماضی کے سیاسی وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، کیونکہ کئی علاقوں میں برسوں سے نئے گیس کنیکشنز کے لیے درخواستیں زیر التوا ہیں، جس سے عوام کی ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

علاوہ ازیں، حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم ڈویژن کو گیس انفراسٹرکچر کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں اور حکومت نے آئندہ سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد گھریلو، تجارتی اور صنعتی کنیکشنز جاری کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

یہ فیصلہ توانائی کے شعبے میں بہتری لانے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے حکومتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

درآمدی گیس کا استعمال

حکومت کا نئے گیس کنیکشنز کھولنے کا جو منصوبہ زیرِغور ہے، اس میں صرف مقامی گیس پر انحصار نہیں کیا جا رہا بلکہ حکومت کا ارادہ ہے کہ درآمدی ایل این جی کو مقامی گیس کے ساتھ ملا کر صارفین کو ایک درمیانی قیمت پر گیس فراہم کی جائے، تاکہ نہ صرف رسد کا مسئلہ حل ہو بلکہ معاشی دباؤ بھی کم ہو۔

اس حوالے سے اوگرا کے سابق رکن محمد عارف کا کہنا ہے کہ ’حکومت اگر گیس کی کھپت بڑھانا چاہتی ہے تو اسے لازمی طور پر نئے گیس کنیکشنز کھولنے ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو درآمدی ایل این جی کے کارگو یا تو تاخیر سے منگوانے پڑ رہے ہیں یا انہیں منسوخ کرنا پڑ رہا ہے، اور ایسی صورتِ حال میں اگر نئے کنیکشنز دیے جائیں تو مجموعی کھپت میں اضافہ ہوگا، جو کہ حکومت کے لیے معاشی لحاظ سے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔‘

حکومت کی کوشش ہے کہ درآمدی گیس کی اضافی مقدار کو مؤثر طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو نئے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بچھانے کی بجائے پہلے سے موجود گیس انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے نئے کنیکشنز دینے چاہییں۔

ان کے مطابق حکومت اگر نئی گیس پائپ لائنیں اور نیٹ ورک بچھانے لگے تو اس کی لاگت بہت زیادہ آئے گی، جو بعد میں حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

محمد عارف نے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں جو گیس کے ذخائر پہلے سے موجود ہیں وہ فل کپیسٹی پر استعمال نہیں ہو رہے۔ اگر انہی ذخائر سے نئے کنیکشنز کو گیس فراہم کی جائے، اور درآمدی و مقامی گیس کو ملا کر متوازن قیمت پر صارفین تک گیس پہنچائی جائے، تو اس سے نہ صرف گیس کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ قیمت بھی صارفین کے لیے قابلِ برداشت رہے گی۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت پہلے ہی صارفین سے گیس کی جو قیمت وصول کر رہی ہے وہ خاصی زیادہ ہے، اور اسی قیمت پر نئے کنیکشنز بھی دیے جا سکتے ہیں۔

توانائی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ماہر توانائی اور سینیئر صحافی خلیق کیانی کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ درآمدی گیس کے سرپلس (اضافی مقدار) کو کسی مؤثر طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی تجویز ہے کہ درآمدی گیس، مقامی گیس، اور گیس فیلڈز میں دستیاب گیس کو ملا کر مناسب قیمت پر صارفین تک موجودہ پائپ لائن سسٹم کے ذریعے گیس پہنچائی جائے، اور اسی نظام کے تحت نئے کنیکشنز فراہم کیے جائیں۔

خلیق کیانی کے مطابق اس وقت یہ تجویز وزیراعظم آفس میں زیرِغور ہے جو وزارتِ خزانہ کی سفارش پر وزارتِ پیٹرولیم نے تیار کر کے ارسال کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس تجویز پر کیا فیصلہ کرتی ہے اور اس پر کس طریقے سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts