شدید گرمی کو شکست دینے والی دبئی کی پرانی گلیاں اور ان کے تعمیراتی راز

ایئر کنڈیشننگ پر انحصار سے بہت پہلے دبئی کے پرانے علاقے میں لوگ مختلف طریقوں سے اپنے گھروں کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ آج ایک بار پھر وہی طریقے دوبارہ استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔

ایئر کنڈیشننگ پر انحصار سے بہت پہلے دبئی کے پرانے علاقے میں لوگ مختلف طریقوں سے اپنے گھروں کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ آج ایک بار پھر وہی طریقے دوبارہ استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔

دبئی کی دوپہر کی گرمی جیسی کوئی گرمی نہیں۔ یہ بے رحم اور اکثر جان لیوا حد تک شدید ہوتی ہے۔ مگر شہر کا ایک کم معروف حصہ ایسا بھی ہے جہاں بغیر ایئر کنڈیشنر کے، پرانے طریقے سے آپ سکون حاصل کر سکتے ہیں۔

جب میں پرانے دبئی کے علاقے الفہیدی کے تنگ راستوں میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے دوپہر کے سورج کی تپش سے پناہ نصیب ہوتی ہے۔ ان سایہ دار گلیوں کی اونچی دیواریں ایسی ٹھنڈی ہوائيں پیدا کرتی محسوس ہوتی ہیں جیسے کہ وہ کہیں سے جادوئی طور پر آ گئی ہوں۔ جیسے صحرا کی گرم ہواؤں کو کسی نے مسخر اور مسحور کر لیا ہو۔ جن لوگوں نے یہ علاقہ بسایا، وہ واقعی فنِ تعمیر سے بخوبی واقف تھے۔

اوپر چار منزلہ ہواگیر دکھائی دیتے ہیں، جو آسمان کی طرف بلند ہو رہے ہیں، یہ اختراع پسند تعمیرات کبھی گھروں کو قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھا کرتی تھیں۔ آج ان میں کبوتروں نے بسیرا کر رکھا ہے۔

شہر کے اس پرسکون اور سادہ حصے میں آسائش کی جگہ تخلیقیت اور افادیت نے لے لی ہے۔ ان گلیوں کی تعمیرات میں ایسے لوگوں کی ماحولیاتی دانائی نظر آتی ہے جنھوں نے ریگستانی ماحول میں جینا سیکھ لیا تھا۔

الفہیدی کا کچھ حصہ 1700 کی دہائی کا تعمیر کردہ ہے۔ مگر یہاں کی عمارات کا قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنے والا، گرمی کی لہر برداشت کرنے والا ڈیزائن آج کے دور میں پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

یہاں کا یہی طرزِ تعمیر آج کی جدید عمارتوں اور پورے شہروں کو متاثر کر رہا ہے اور شہری منصوبہ ساز موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پرانے دبئی جیسے علاقوں سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔

اور یہ جائے حیرت نہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک اختراع پسندانہ طرزِ تعمیر دبئی کے لوگوں کو ٹھنڈا رکھ سکتا ہے، تو کیا یہ باقی دنیا کے لیے بھی کارآمد ہو سکتا ہے؟

گذشتہ سال دبئی میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا لیکن اس کا 'فیل' یعنی 'محسوس ہونے والا' درجہ حرارت، جس میں نمی کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے، 62 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔

متحدہ عرب امارات میں ایئر کنڈیشننگ عام ہے اور گرمیوں میں بجلی کے استعمال کا 70 فیصد سے زیادہ اسی پر خرچ ہوتا ہے۔ تاہم، روایتی اور قدرتی طور پر ٹھنڈک پیدا کرنے والے طریقوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آزمائے ہوئے یہ طریقے عمارتوں کو سایہ دار رکھنے اور ہوا کے بہاؤ کو منظم کرنے میں مدد دیتے ہیں، اور یہ بغیر زیادہ بجلی خرچ کیے گرمی سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

میرے گائیڈ نور احمد کہتے ہیں: ’اماراتیوں نے ایسی رہائش گاہیں بنائیں جو مکمل طور پر صحرا کے ماحول کے لیے موزوں تھیں۔ ہواگیر باہر کی ٹھنڈی ہوا کو پکڑتے اور اندر کی گرم ہوا کو باہر نکالتے تھے۔‘

پرانے علاقے کی بھول بھلیوں جیسی گلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نور احمد بتاتے ہیں کہ کیسے اونچی دیواریں پیدل چلنے والوں کو دھوپ سے بچاتی تھیں۔

جب 1700 کی دہائی میں پرانا دبئی وقت کی دھول سے ابھرا تو یہ رہائش کے لیے مقبول مقام بن گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آج کے اماراتیوں کے آبا و اجداد خانہ بدوش طرزِ زندگی سے ہجرت کرکے دبئی کریک کے کنارے ایک مستقل زندگی اختیار کرنے لگے تھے۔ دبئی کریک شہر کے بیچوں بیچ بہنے والا ایک قدرتی نمکین پانی کا نالا ہے۔

شہر کے ابتدائی باشندوں نے ایسے اختراعی گھر بنائے جو عرب کے ریگستان کی سخت آب و ہوا کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے اپنی تعمیرات میں ہواگیر (برجیل)، بند صحن، جالی دار کھڑکیاں (مشربیہ)، مونگے کے پتھر سے بنے مکانات اور تنگ گلیاں (سکّے) استعمال کیں۔

دبئی کے شیخ محمد بن راشد المکتوم مرکز برائے ثقافتی تفہیم کے سینیئر کلچرل سپیکر احمد الجفلہ کہتے ہیں کہ ’الفہیدی کی تعمیرات کی خوبصورتی اس چیز میں مضمر ہے کہ اس میں بیک وقت کئی قدرتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو پورے علاقے کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ مرکز برائے ثقافتی تفہیم اماراتی ثقافت اور تاریخ کو فروغ دینے والا غیر منافع بخش ادارہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے آبا و اجداد نے ایک مکمل طرزِ تعمیر وضع کیا تھا جو ہوا کے بہاؤ کو بہتر بناتا، سایہ فراہم کرتا اور سورج کی تپش کو کم کرتا تھا کیونکہ یہ سب عوامل پرانے دبئی میں آرام دہ درجہ حرارت قائم رکھنے کے لیے ضروری تھے۔‘

بارجیل، یعنی روایتی ہواگیر، چھتوں پر نصب کیے جاتے تھے۔ یہ عمارتوں میں ہوا کے قدرتی بہاؤ بناتے اور ٹھنڈک پیدا کرتے تھے۔ یہ اوپر کی سطح سے ہوا کو پکڑ کر اندر کی طرف موڑ دیتے تھے۔ ٹھنڈی ہوا اندر گردش کرتی تھی اور گرم ہوا اوپر اٹھ کر باہر نکل جاتی تھی۔ بعض اوقات یہ عمل اندرونی درجہ حرارت کو تقریباً 10 ڈگری تک کم کر دیتا تھا۔

ہیریئٹ واٹ یونیورسٹی دبئی میں انٹیریئر فن تعمیرات کی اسسٹنٹ پروفیسر ورشالی ماترے کہتی ہیں: ’بارجیل خلیجی علاقوں میں گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں مدینت جمیرا اور خلیفہ الطائر مسجد، جو دبئی کی ایک سبز مسجد ہے جیسی جدید عمارات میں وسیع پیمانے پر اپنایا گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ خلیفہ الطائر مسجد کو سنہ 2016 میں لیڈ سرٹیفکیشن حاصل سے نوازا گیا تھا۔ یہ گرین بلڈنگ سند ہے جو امریکہ کی گرین بلڈنگ کونسل ایسی تعمیرات کو دیتی ہے جس میں کاربن کے اخراج کو صفر کر دیا جاتا ہے۔

الفہیدی علاقے کے زیادہ تر گھروں میں اندرونی صحن ہوتے ہیں جو حرارت کو کنٹرول میں رکھنے والے نظام کے طور پر کام کرتے ہیں، جن میں رات کے وقت ٹھنڈی ہوا نیچے آ کر اردگرد کے کمروں میں پھیل جاتی ہے۔

اونچی دیواروں، چوڑی چھتوں اور بعض اوقات گھنے درختوں سے آراستہ یہ صحن گرد و غبار اور ریت سے بچاؤ فراہم کرتے ہیں اور سورج کی روشنی کے براہ راست اثرات کو کم کرتے ہیں۔

سپین میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس طرزِ تعمیر سے کسی رہائش گاہ کی گرمی کو 18 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ الفہیدی علاقے کی دیواروں میں جالی دار کھڑکیاں (مشربیہ) بنی ہوتی ہیں، جو روشنی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

سنہ 2024 میں کی گئی ایک تحقیق، جس میں ان آلات کے ماڈلز کا استعمال کیا گیا، سے پتا چلا کہ یہ عمارتوں کے اندر کے درجہ حرارت کو بھی کم از کم 3 ڈگری سینٹی گریڈ کم کر سکتی ہیں۔

ماترے مزید کہتی ہیں: ’پرانے دبئی کے صحن نہ صرف قدرتی روشنی، ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ مکینوں کو ایک نجی، محفوظ اور پرسکون اندرونی جگہ بھی مہیا کرتے ہیں، جو مقامی طرزِ تعمیر کے اصولوں یعنی خلوت اور حفاظت کے عین مطابق ہے۔‘

اگرچہ اماراتی لوگ کبھی عمارتوں میں گرمی کو کم کرنے اور روشنی کو منعکس کرنے کے لیے ہلکے رنگ کے مونگے کا پتھر استعمال کرتے تھے لیکن اب سمندری حیات کے تحفظ کے لیے متحدہ عرب امارات میں مونگے کی کان کنی ممنوع ہے۔

تاہم عمارتوں کی بیرونی سطح پر ہلکے رنگوں کا استعمال آج بھی درجہ حرارت کم کرنے کا ایک بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ پرانے دبئی کی عمارتوں میں بیرونی تہہ (کلیڈنگ) اور پودے، خاص طور پر اونچے کھجور کے درخت، جو عمارتوں کو سایہ فراہم کرتے ہیں، جیسی خصوصیات موجود ہیں۔

الجفلہ کہتے ہیں کہ ’قدرتی ٹھنڈک کے نظام میں سکّہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جسے شاید الفہیدی میں سب سے کم سراہا گیا ہے۔ سکّہ روایتی اماراتی طرزِ تعمیر کا ایک جزو ہے اور یہ تنگ پیدل گزرگاہیں ہوتی ہیں جو دو سے تین میٹر چوڑی ہوتی ہیں اور گھروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی لوگوں کو کھلے عوامی مقامات تک لے جاتی ہیں۔ یہ ہوا کے آزادانہ بہاؤ کو ممکن بناتی ہیں، اور اکثر دبئی کریک سے آنے والی خوشگوار ہوا کو اپنے دوش پر لیے آتی ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ ’سیاح اپنی پیدل سیر کے دوران سکّہ میں بیٹھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہاں کا ماحول نہایت ٹھنڈا اور پُرسکون ہوتا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات میں معماروں نے روایتی اصولوں پر مبنی ایسی عمارتیں بنائی ہیں جو شدید گرمی کا قدرتی طریقے سے مقابلہ کر سکتی ہیں۔

اس کی ایک مثال ’مصدر سٹی‘ ہےجو ابوظہبی کے مضافات میں ایک معروف شہری منصوبہ ہے اور پائیداری کے حوالے سے دنیا کی رہنمائی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ وہاں عمارتوں کو قریب قریب بنایا گیا ہے اور گلیاں تنگ رکھی گئی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سایہ حاصل ہو اور قدرتی طور پر ہوا کے بہاؤ کے لیے مقامی ہواؤں کو استعمال کیا جا سکے۔

اس سے عام ماحول کے مقابلے میں درجہ حرارت 10 ڈگری تک کم ہو جاتا ہے۔ ان عمارتوں میں ہواگیر، جالی دار پردے، اور دیگر قدرتی ٹھنڈک پیدا کرنے والے عناصر شامل کیے گئے ہیں، جس سے وہ ابوظہبی کی روایتی عمارتوں کی نسبت 40 فیصد کم توانائی استعمال کرتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے شہر کی مجموعی توانائی کی کھپت میں 38.4 فیصد کمی آئی ہے۔

مصر کی پرانی عمارتوں میں بھی مشربیہ کا استعمال ہوتا تھا
Getty Images
مصر کی پرانی عمارتوں میں بھی مشربیہ کا استعمال ہوتا تھا

مصر میں عرب اکیڈمی فار سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ میریٹائم ٹرانسپورٹ میں پائیدار شہری معاشروں کی اسسٹنٹ پروفیسر شریحان الشاہد کہتی ہیں کہ ’مصدر سٹی نے پرانے اماراتی طرزِ تعمیر کے ان عناصر کو اختراعی انداز میں دوبارہ زندہ کیا ہے جو مشینی ٹھنڈک پر انحصار کم کرتے ہیں کیونکہ یہ تکنیکیں کم خرچ اور بالا نشیں ہیں، اس لیے انھیں آسانی سے دہرایا جا سکتا ہے۔‘

اسی وجہ سے متحدہ عرب امارات کی کئی جدید عمارات نے پرانے دبئی کی تاریخی عمارتوں سے متاثر ہو کر روایتی طرزِ تعمیر کو اپنایا ہے۔ ’مدینت جمیرہ‘ دبئی کا ایک پُرتعیش رہائشی و تجارتی منصوبہ ہے جہاں کئی ہواگیروں اور تنگ گلیوں کا جال نظر آتا ہے تاکہ ہوا کے بہاؤ کو بہتر بنایا جا سکے اور نسبتا ایک ٹھنڈا ماحول پیدا ہو۔‘

’خلیفہ الطائر مسجد‘ حالیہ برسوں میں دبئی کے افق میں شامل ہوئی ہے، اس میں ستونوں کے اوپر اور نیچے چھوٹے سوراخ بنائے گئے ہیں جو ہوا کی عمودی نقل و حرکت کو ممکن بناتے ہیں۔

ماترے کہتی ہیں کہ ’اگرچہ یہ مکمل طور پر روایتی بارجیل نہیں، لیکن اس ڈیزائن نے ہوا پکڑنے والی تکنیک کو جدید طرز میں استعمال کیا ہے، جو مصنوعی نظام پر مکمل انحصار کیے بغیر جگہ کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔‘

آج دنیا بھر میں ہواگیر اور ان کی جدید صورتیں عام ہو چکی ہیں۔ لندن کے رائل چیلسی ہسپتال سے لے کر امریکی ریاست یوٹا کے ’ونڈ کیچر ہاؤس‘ تک اس کا نمونہ ہیں۔

ابوظہبی کا تجارتی پروجیکٹ ’البحر ٹاورز‘ ایسی مشربیہ جالیوں سے آراستہ ہے جو سورج کی پوزیشن کے مطابق خودکار طور پر کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔ یہ عمارت میں داخل ہونے والی روشنی کو قابو میں رکھتی ہیں اور ان کی چمک کم کرتی ہیں۔ ابوظہبی کے معروف آرٹ میوزیم ’لوور‘ بھی مشربیہ سے متاثر ایک گنبدی چھت بنائی گئی ہے۔

جدید عمارتوں میں صحن پر مبنی ڈیزائن کا استعمال ہو رہا ہے۔ ابوظہبی کی شیخ زاید مسجد اور دبئی کا سٹی سینٹر مردف شاپنگ مال اس کی مثال ہیں۔ یہ طرزِ تعمیر دنیا کے دیگر حصوں میں بھی عام ہو رہا ہے۔

انڈیا کے شہر تھریسور میں ’بریتھنگ وال ریزیڈنس‘ اور جاپان کے ہیروشیما میں ’آپٹیکل گلاس ہاؤس‘ اس بات کی مثالیں ہیں کہ خلیجی خطے کے بالکل مختلف موسموں میں بھی اندرونی صحن کس طرح قدرتی ٹھنڈک سے آراستہ رہ سکتے ہیں۔

الشاہد کہتی ہیں کہ ’یہ قدرتی ٹھنڈک کی تکنیکیں دنیا بھر میں اپنائی جا سکتی ہیں، بس انھیں مقامی موسم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، استوائی (ایکوئٹر) علاقوں میں بارش اور نمی کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، جب کہ معتدل خطوں میں درجہ حرارت کی بڑی تبدیلیوں اور مؤثر انسولیشن کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔‘

وہ مشترک پہلو جو 1700 کی دہائی کے پرانے دبئی کو آج کی جدید اور توانائی بچانے والی عمارتوں سے جوڑتا ہے، وہ ایسے طرزِ تعمیر کو اپنانے کا تصور ہے جو اپنے ماحول کے مطابق ہو۔

ماترے کہتی ہیں کہ ’آج بھی، اگر ہم ماحول کی فطری کیفیت کو سمجھ کر اس کی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کریں، تو ہم گھروں کو پائیدار انداز میں ٹھنڈا رکھ سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی معدنی ایندھن کے استعمال کے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow