’بے بی ڈول آرچی کون ہیں؟‘ یہ سوال گوگل اور دیگر سرچ انجنز میں ڈھونڈا جانے لگا لیکن حقیقت میں اس وائرل سنسنی کے پیچھے کوئی اصل عورت موجود ہی نہیں تھیں۔
’بے بی ڈول آرچی‘ نامی ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کی فالوئنگ چند دن میں دگنی ہو کر 14 لاکھ تک پہنچ گئی اور اُن کی بولڈ تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر نئے فالورز اُن کا اکاؤنٹ جوائن کرنے لگے۔
انڈیا میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں وہ ایک لال ساڑھی پہنے رومانوی گانے پر دلکش انداز میں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک اور تصویر میں وہ امریکی پورن فلموں کی اداکارہ کندرا لسٹ کے ساتھ پوز دیتی بھی دیکھی گئیں۔
یہ ویڈیوز اور تصاویر انھیں اچانک شہرت کی بلندیوں پر لے گئیں اور اُن کا نام گوگل پر ٹرینڈ کرنے لگا، سوشل میڈیا پر میمز اور فین پیجز بننے لگے۔ کچھ رپورٹس میں قیاس آرائیاں کی گئیں کہ وہ جلد ہی امریکن پورن فلموں کی انڈسٹری میں شامل ہونے والی ہیں اور یہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی کسی بھی خاتون کے لیے پہلا واقعہ ہوتا۔
انڈین میڈیا بھی پیچھے نہیں رہا اور انھوں نے بے بی ڈول آرچی کو ’انفلوئنسر‘ قرار دیا، کئی اداروں نے اُن کی پروفائل بھی لکھنے کی کوشش کی۔
’بے بی ڈول آرچی کون ہیں؟‘ یہ سوال گوگل اور دیگر سرچ انجنز میں ڈھونڈا جانے لگا لیکن حقیقت میں اس وائرل سنسنی کے پیچھے کوئی اصل عورت موجود ہی نہیں تھیں۔
انسٹاگرام اکاؤنٹ جعلی تھا لیکن اس اکاؤنٹ کو چلانے کے لیے جس چہرے کا استعمال کیا گیا وہ آسام کے شہر ڈبروگڑھ کی ایک خاتون سے حیرت انگیز مشابہت رکھتا تھا (اس آرٹیکل میں ہم اِس خاتون کے لیے ’سانچی‘ کا فرضی نام استعمال کریں گے)۔
اصل کہانی اُس وقت سامنے آئی جب سانچی کے بھائی نے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ پولیس نے تفتیش کی جس کے نتیجے میں سانچی کے سابق بوائے فرینڈ پرتیم بورا کو گرفتار کیا گیا۔
تحقیقات کی سربراہی کرنے والی سینیئر پولیس افسر سیزل اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ سانچی اور پرتیم بورا کے درمیان تعلقات خراب ہوئے تو لڑکے نے ’انتقام‘ کی نیت سے سانچی کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے بنایا گیا ورژن تیار کیا۔
اگروال کے مطابق پرتیم جو ایک مکینیکل انجینئر ہیں اور مصنوعی ذہانت میں دلچسپی لیتے ہیں، نے سانچی کی نجی تصاویر استعمال کر کے اُن کا جعلی پروفائل بنایا۔
پرتیم بورا اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں اور انھوں نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا۔ بی بی سی نے ان کے خاندان سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے فی الحال اس معاملے پر لب کشائی نہیں کی۔
’بے بی ڈول آرچی‘ کے نام سے اکاؤنٹ درحقیقت 2020 میں بنایا گیا تھا اور اس سے پہلی پوسٹس مئی 2021 میں اپ لوڈ کی گئی۔ اگروال کے مطابق ابتدائی تصاویر سانچی کی اصل تصاویر تھیں جنھیں ایڈٹ کر کے اپلوڈ کیا گیا تھا۔
’وقت کے ساتھ پرتیم نے چیٹ جی پی ٹی اور Dzine جیسے ٹولز استعمال کر کے سانچی کا ایک اے آئی ورژن تیار کیا۔ پھر اِس اکاؤنٹ کو ڈیپ فیک تصاویر اور ویڈیوز سے بھر دیا۔‘
اگروال نے مزید کہا کہ یہ اکاؤنٹ گذشتہ سال سے صارفین کی توجہ حاصل کر رہا تھا لیکن رواں سال اپریل میں یہ کافی مشہور ہو گیا اور سرچز میں آنے لگا۔
سانچی کے خاندان کی جانب سے 11 جولائی 2025 کی رات پولیس میں درج کروائی گئی شکایت صرف دو پیراگراف پر مشتمل تھی جس کے ساتھ کچھ تصاویر اور ویڈیوز کے پرنٹ بطور ثبوت منسلک کیے گئے تھے۔
اگروال کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ (سانچی کے بھائی) نے کسی کو نامزد نہیں کیا تھا کیونکہ خاندان کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس سب معاملے کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔

بے بی ڈول آرچی پولیس کے لیے نیا یا انجان نام نہیں تھا۔
اگروال کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر وہ قیاس آرائیاں دیکھی تھیں جن میں کہا جا رہا تھا کہ یہ شاید اے آئی (مصنوعی ذہانت) سے بنائی گئی شخصیت ہے لیکن کہیں یہ ذکر نہیں تھا کہ یہ کسی حقیقی خاتون کی تصاویر کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
جب سانچی کے خاندان نے شکایت درج کروائی تو پولیس نے انسٹاگرام کو ای میل لکھ کر اکاؤنٹ بنانے والے شخص کی تفصیلات مانگیں۔
اگروال نے بتایا ’جیسے ہی انسٹاگرام سے معلومات ملیں، ہم نے سانچی سے پوچھا کہ کیا وہ کسی پرتیم بورا نامی شخص کو جانتی ہیں؟ جب اُس نے تصدیق کی کہ وہ اُن کا سابق بوائے فرینڈ ہے تو پولیس نے اس کے موجودہ ایڈریس کا سراغ لگایا اور 12 جولائی کی شام اسے گرفتار کر لیا گیا۔‘
اگروال کے مطابق پولیس نے پرتیم بورا کا لیپ ٹاپ، موبائل فونز، ہارڈ ڈرائیوز اور بینک سے متعلق دستاویزات ضبط کر لی ہیں کیونکہ اس نے اس اکاؤنٹ سے کافی پیسے بھی کمائے تھے۔
اگروال نے بتایا ’اکاؤنٹ پر لنک ٹری کے ذریعے تین ہزار سبسکرپشنز تھیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس نے اس سے ایک ملین روپے (دس لاکھ روپے) کمائے ہوں گے۔ صرف گرفتاری سے پانچ دن پہلے اس کو تین لاکھ روپے ملے تھے۔‘
اگروال کہتی ہیں کہ سانچی ’شدید صدمے اور پریشانی‘ کا شکار ہیں لیکن اب انھیں اور ان کے خاندان کو کونسلنگ فراہم کی جا رہی ہے اور اُن کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا ’ایسی چیزوں کو مکمل طور پر روکنے کا تو کوئی طریقہ نہیں لیکن اگر ہم جلدی ایکشن لیتے تو شاید اس اکاؤنٹ کو اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوتی۔‘
اگروال نے کہا ’لیکن سانچی کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر موجود ہی نہیں تھیں۔ اُن کا خاندان بھی اس اکاؤنٹ سے مکمل طور پر بے خبر تھا۔ انھیں تب ہی معلوم ہوا جب یہ سب وائرل ہو چکا تھا۔‘
میٹا نے اس معاملے پر بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا ’حالانکہ کمپنی کی پالیسی کے مطابق وہ فحش یا جنسی نوعیت کی پوسٹس کی اجازت نہیں دیتا۔‘
پچھلے مہینے سی بی ایس نے رپورٹ کیا تھا کہ میٹا نے کئی ایسے اشتہارات کو ہٹا دیا ہے جو اے آئی ٹولز کی تشہیر کر رہے تھے اور جنھیں حقیقی افراد کی تصاویر استعمال کر کے جنسی نوعیت کی ڈیپ فیک بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
(فائل فوٹو) مصنوعی ذہانت کی ماہر اور وکیل میگھنا بال کہتی ہیں کہ سانچی کے ساتھ جو کچھ ہوا ’وہ نہایت ہولناک ہے لیکن اسے روکنا تقریباً ناممکن ہے‘بے بی ڈول آرچی کا انسٹاگرام اکاؤنٹ جس پر 282 پوسٹس تھیں، اب عوام کے لیے دستیاب نہیں حالانکہ سوشل میڈیا پر اُن کی تصاویر اور ویڈیوز اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ تو ایسا بھی ہے جس پر تقریباً سارا مواد موجود ہے۔
بی بی سی نے میٹا سے سوال کیا کہ وہ اس بارے میں کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ مصنوعی ذہانت کی ماہر اور وکیل میگھنا بال کہتی ہیں کہ سانچی کے ساتھ جو کچھ ہوا ’وہ نہایت ہولناک ہے لیکن اسے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔‘
سانچی عدالت سے ’رائٹ ٹو بی فارگوٹن‘ یعنی انٹرنیٹ سے سارا مواد ہٹانے کی درخواست کر سکتی ہیں اور عدالت ایسی پریس رپورٹس کو بھی ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے جن میں ان کا نام لیا گیا ہو لیکن انٹرنیٹ سے ہر ویڈیو اور تصویر ہٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
میگھنا بال کہتی ہیں کہ سانچی کے ساتھ جو ہوا وہ دراصل وہی ہے جو خواتین کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔۔۔یعنی ان کی تصاویر اور ویڈیوز ’بدلہ لینے‘ کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اب یہ سب کچھ اے آئی کی وجہ سے بہت آسان ہو گیا لیکن ایسے واقعات اتنے عام نہیں جتنے ہم سمجھتے ہیں یا پھر یہ کم رپورٹ ہوتے ہیں کیونکہ متاثرہ افراد شرمندگی کی وجہ سے یا بےخبری میں شکایت ہی نہیں کرتے، جیسا کہ اس کیس میں ہوا۔‘
اور چونکہ ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے والوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا سائبر کرائم پورٹل پر ایسا مواد رپورٹ کرنے کی صورت میں کسی انعام وغیرہ کی ترغیب نہیں دی جاتی، اس لیے ایسے معاملات زیادہ تر توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔
پرتیم بورا کے خلاف درج شکایت میں پولیس نے جن دفعات کا حوالہ دیا’ان میں جنسی ہراسانی، فحش مواد کی تقسیم، بدنامی، کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے جعل سازی، دھوکہ دہی، اور سائبر کرائم شامل ہیں۔
اگر پرتیم بورا ان الزامات میں قصوروار پائے گئے تو انھیں دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یہ کیس سوشل میڈیا پر بھی سخت ردِعمل کا باعث بنا، جہاں کئی لوگ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم میگھنا بال کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین کافی ہیں مگر یہ ضرور دیکھنا ہو گا کہ کیا جنریٹیو اے آئی کمپنیوں کے لیے بھی کوئی مخصوص قانون بنایا جانا چاہیے یا نہیں۔
وہ خبردار کرتی ہیں کہ ’ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ ڈیپ فیک سے نقصان نہیں ہوتا اس لیے قوانین نہایت احتیاط سے بننے چاہییں کیونکہ انھیں اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے ہتھیار بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘