ماضی کے ناکام تجربات کے باوجود اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں متعدد انگریزی نیوز چینلز لانچ کے لیے تیار ہیں۔ بی بی سی نے ان چینلز سے وابستہ لوگوں اور ماضی میں انگریزی چینلز سے منسلک افراد سے بات کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر اس وقت کیوں پاکستان میں یکے بعد دیگرے انگریزی نیوز چینلز لانچ کیے جا رہے ہیں اور اس مرتبہ ان کی کامیابی کی ضمانت کیا ہے؟

پاکستان میں ماضی میں متعدد مرتبہ انگریزی نیوز چینلز لانچ کروانے کے تجربات کیے جاتے رہے ہیں مگر یہ تجربات کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ڈان، جیو اور ایکسپریس جیسے بڑے میڈیا ہاؤسز نے اپنے انگریزی چینلز لانچ کیے تھے مگر چند ہی مہینوں کے بعد انھیں بند کر دیا گیا۔
ماضی کے ناکام تجربات کے باوجود اب ایک مرتبہ پھر پاکستان میں متعدد انگریزی نیوز چینلز لانچ کے لیے تیار ہیں۔
ان چینلز میں ایکسپریس 7/24، ایشیا ون اور 365 انگلش شامل ہیں۔ بی بی سی نے ان چینلز سے وابستہ لوگوں اور ماضی میں انگریزی نیوز چینلز سے منسلک افراد سے بات کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر اس وقت کیوں پاکستان میں یکے بعد دیگرے انگریزی نیوز چینلز لانچ کیے جا رہے ہیں اور اس مرتبہ ان کی کامیابی کی ضمانت کیا ہے؟
شیراز حسنات ایکسپریس 7/24 کے ڈائریکٹر نیوز ہیں اور وہ ماضی میں بند ہو جانے والے انگریزی نیوز چینلز کا بھی حصہ رہے ہیں۔
وہ کافی پُرامید ہیں کہ اس مرتبہ ایکسپریس 7/24 کا دوبارہ تجربہ کامیاب رہے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 'اب انگریزی بولنے والے صحافی زیادہ ہیں اور نئی جنریشن کی اردو زیادہ اچھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ میرے بچے بھی جنریشن ایلفا سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اردو بھی اچھی نہیں ہے۔'
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت انگریزی چینل کی کمی ہے اور ناظرین اس کمی کو محسوس کر رہے ہیں 'اب انگریزی چینلز مارکیٹ میں جگہ بنا سکتے ہیں کیونکہ چیزیں اب بدل رہی ہیں۔'
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ساکھ بھی یہاں ایک اہم پہلو ہے جس کے سبب انگریزی چینل لانچ کیا جا رہا ہے کیونکہ 'اکثر سفارتکار ہمیں بتاتے ہیں کہ انھیں درست معلومات انگریزی میں حاصل کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔'

گذشتہ مہینوں میں پاکستان میں کچھ حلقوں کی جانب سے ایسی قیاس آرائیاں سُننے میں آئیں تھیں کہ ملک میں انگریزی چینلز کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی دنیا کے سامنے اسلام آباد کا مؤقف رکھا جا سکے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے شیراز حسنات کا کہنا تھا کہ 'میں یہ حتمی طور پر تو نہیں کہہ سکتا لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد کہا جا رہا تھا کہ ایک انگریزی چینل کی ضرورت ہے جو پاکستان کا مؤقف دنیا کے سامنے رکھ سکے اور انڈیا کے پروپیگنڈے کو شکست دے سکے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی طرف کا بیانیہ بلکہ کلچرل بیانیہ، کھلیوں کا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔'
وہ کہتے ہیں 'اسی طرح دنیا کو یہ بھی بتانا ہے کہ پاکستان کا غزہ کے حوالے سے کیا مؤقف ہے۔'
ماضی میں انگریزی چینلز کے ناکام ہونے کی وجہ کیا تھی؟
پاکستان صحافی لبنیٰ جرار نقوی ماضی میں جیو انگلش کا حصہ رہی ہیں۔ وہ ماضی انگریزی نیوز چینلز کی ناکامی کی وجہ بتاتے ہوئے دعویٰ کرتی ہیں کہ ملک میں 'زیادہ لوگ انگریزی نہیں پڑھ سکتے اور انگریزی میڈیا کا مزاج بھی اردو میڈیا کے مقابلہ میں پُرسکون تھا۔'
'یعنی انگریزی میڈیا اردو میڈیا کے مقابلے میں سنسنی خیز خبریں نہیں دیتا تھا اور لوگوں کو اسی کی زیادہ عادت تھی۔'
'انگریزی چینل کو قائم رکھنے کے لیے سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کمی ماضی میں دیکھنے میں آئی ہے۔'
تاہم شیراز حسنات ماضی میں انگریزی چینلز کی ناکامی کی وجہ کچھ اور بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت 'مقامی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی جو کہ میرے خیال میں کوئی قابلِ عمل آئیڈیا نہیں تھا اور اس وقت انگریزی بولنے والوں کی بھی کمی تھی۔'
مگر وہ سمجھتے ہیں کہ حالات اب تبدیل ہو گئے ہیں اور اب انگریزی چینلز کے قائم رہنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن ہمیں ان چینلز کو غیرحقیقی طریقے سے وسعت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
لبنیٰ جرار نقوی کہتی ہیں کہ 'اب خبروں کی نئی جگہ ڈیجیٹل ہے اور مجھے یہ انگریزی نیوز چینلز کا خیال ہی سمجھ نہیں آ رہا۔'
'کہا یہی جا رہا ہے کہ مقتدر حلقوں کو ایک ماؤتھ پیس چاہیے تھا' اسی لیے انگریزی چینلز آ رہے ہیں اور 'یقیناً ان کی ٹارگٹ آڈینس غیرملکی ہیں۔

صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انگریزی نیوز چینلز کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ تاہم ان کی طویل مدتی بقا غیر یقینی ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی اس نوعیت کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں انگریزی خبروں کے لیے محدود ناظرین ایک بڑا چیلنج ہیں۔ بین الاقوامی ناظرین کو متوجہ کرنے کے لیے ان چینلز کو وہ مہارت، وسائل اور عالمی نیٹ ورک درکار ہوں گے جو بین الاقوامی نیوز اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کئی چینلز ناکافی مالی وسائل کے ساتھ شروع کیے جاتے ہیں جو عموماً ان کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔‘
فاضل جمیلی کا مزید کہنا ہے کہ ’حال ہی میں ان چینلز کا آغاز انڈیا کے ساتھ حالیہ تنازعے کے بعد بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر رسائی کی یہ کوشش حکومت کی مقامی میڈیا پر سخت پابندیوں اور کنٹرول کے ساتھ تضاد رکھتی ہے۔‘
صدر کراچی پریس کلب کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ایسے قوانین منظور کیے جا چکے ہیں جیسے ’پیکا‘ (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ)، جنھیں سنسرشپ کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جب مقامی میڈیا محدود ہو اور ایسی پابندیوں کا شکار ہو تو پاکستانی نیوز اداروں کے لیے بین الاقوامی سطح پر خود کو ایک معتبر اور آزاد ذریعہ کے طور پر منوانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ایشیا ون 365 نیوز گروپ کا انگریزی چینل ہے۔ اس کے ڈائریکٹر نیوز نوید قمر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اپنے چینل کو ایک بجٹ کے اندر چلائیں گے اور اس سے باہر نہیں نکلیں گے اور یہی اس چینل کے برقرار رہنے کی ضمانت ہے۔
یہ انگریزی نیوز چینل آج ہی لانچ ہوا ہے اور اس کے ڈائریکٹر نیوز کے مطابق انھوں نے اپنے چینل کے لیے مقامی ٹیلنٹ کو بھرتی نہیں کیا بلکہ ان کے ’میزبانوں کا تعلق یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے ہے۔‘
’میں انٹرنیشنل میزبانوں کو پاکستان لایا ہوں اور ایک مثال قائم کر رہا ہوں کہ یہ ایک محفوظ ملک ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کا انگریزی نیوز چینل ماضی میں پاکستان میں لانچ کیے گئے چینل سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ ’وہ چینلز بیانیہ بنانے میں ناکام رہے تھے لیکن ان کا چینل پہلے ہی روز سے وہ کام کر رہا ہے جو کسی نے نہیں کیا جیسے کہ پاکستان کو ایک محفوظ ملک کے طور پر دکھانا اور اس کا امیج بہتر بنانا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے چینل کا ایک دفتر کراچی میں واقع ہے اور اس کے علاوہ وہ کوئی دوسرا بیورو نہیں بنائیں گے تاکہ بجٹ میں رہ کر باصلاحیت کام کیا جا سکے۔