سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ اور معروف قانون دان ظہور احمد شاہوانی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران نئے وکلاء اتحاد کا اعلان کر دیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک خصوصاً بلوچستان میں عدلیہ، وکلاء اور آئینی عملداری کی بدتر ہوتی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ "اگر ہم آج بھی متحد نہ ہوتے تو یہ نہ صرف ملک بلکہ بلوچستان کے لیے خطرناک ثابت ہوتا۔" ان کے مطابق وکلاء نے ملک کے موجودہ حالات اور عدلیہ پر بڑھتے دباؤ کو دیکھتے ہوئے نئے پینل کا فیصلہ کیا ہے جو صرف انتخابی اتحاد نہیں بلکہ نظریاتی جدو جہد کی بنیاد پر کھڑا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں اور عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑتے رہیں گے، عدلیہ کو اکثر معاملات میں سر تسلیم خم کرنا پڑ رہا ہے، نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں وکلاء اتحاد بنانے کا کہہ رہے ہیں، طاقتوروں کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلنے کے رویئے کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، صوبے کے مسائل کو اجاگر کرنے پر ناصرف وکلاء بلکہ عام آدمی کو بھی لاپتہ کیا جارہا ہے، تین /چار مسلسل واقعات میں وکلا کو لاپتہ کیا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وفاق نے صوبہ کے معاملات کو قبضے میں لینا شروع کر دیا ہے ،ہم دستور کے قائل ہیں جو بھی دستور کے خلاف ہوگا ہم آواز بلند کریں گے، جب تک وکلاء طاقتور ہوں گے تو عدلیہ بھی طاقتور ہوگی، اعلیٰ عدلیہ دستور کے مطابق نہیں چل رہی، ہم ملک اور صوبے میں دستور کی سیاست چاہتے ہیں۔
اس موقع پر ظہور احمد شاہوانی نے کہا کہ 26وین آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے، فارم 47 والے اراکین اسمبلی عوام کے مفاد میں فیصلے نہیں کرسکتے، مائنز اینڈ منرل ایکٹ کی حمایت اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں نے کی، اب مائنز اینڈ منرل ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں عام لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا تھا اب وکلاء کو لاپتہ کیا جارہا ہے ،ماضی میں بھی بلوچستان کی خواتین نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا مگر بے سود رہا ،اب جو خواتین گئی ہیں انہیں اسلام میں بیٹھنے کی جگہ نہیں دی جارہی، سیاسی پارٹیوں کے کردار سے ہم مایوس ہوچکے ہیں، عدالتوں کے بائیکاٹ سے وکلاء کو نہیں بلکہ سائلین کو مشکلات کا سامنا کر پڑ رہا ہے، وکلاء فیسیں جیب میں ڈال کر بائیکاٹ کا اعلان کر تے ہیں، ہم نے اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا ،ہم ملک کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر وکلاء کے حقوق کے لیے جدو جہد کرسکتے ہیں۔