امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا سے امریکہ آنے والے سامان تجارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس سے ہتھیاروں اور تیل کی خریداری کے باعث انڈیا پر اضافی جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ یہ اقدامات انڈیا کی معیشت پر کیسے اثر انداز ہوں گے اور کیا انڈیا روس کے معاملے پر ٹرمپ کی دھمکی کے آگے جھک جائے گا؟

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا سے امریکہ برآمد کیے جانے والے سامان تجارت پر 25 فیصد اضافی ٹیکس عائد ہو گا۔
25 فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے روس سے ہتھیاروں اور تیل کی خریداری اور انڈیا کے برکس کا رُکن ملک ہونے کے باعث اس پر اضافی درآمدی ڈیوٹی (جرمانہ) لگانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مگر اس اضافی ڈیوٹی کی شرح کیا ہو گی یہ تاحال معلوم نہیں ہے۔
ٹرمپ کے مطابق انڈیا پر ٹیرف اور جرمانے کا اطلاق یکم اگست 2025 سے ہو گا۔
ٹرمپ نے انڈیا کے خلاف ٹیرف کا اعلان ایسے وقت میں کیا ہے جب دونوں ممالک تجارتی معاہدے تک پہنچنے کے لیے گذشتہ کئی مہینوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے انڈیا کو یکم اگست کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی تاہم تاحال یہ معاہدہ طے نہیں پا سکا ہے، اور اب اس ڈیڈ لائن سے دو دن پہلے ہی ٹرمپ نے انڈیا کے خلاف 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے۔
ماضی قریب میں ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ انڈیا کو ’ٹیرف کنگ‘ قرار دے چکے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ انڈیا امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو ’پامال‘ کرتا ہے۔
ٹیرف کسی بھی ملک کی جانب سے عائد کیے جانے والا ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے آنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس 25 فیصد ٹیرف اور اضافی ڈیوٹی کا انڈیا کی معیشت پر کیا اثر پڑے گا اور کیا انڈیا روس کے معاملے پر ٹرمپ کی دھمکی کے آگے جھک جائے گا؟
مگر اس سے قبل جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے انڈیا کے متعلق کیا کچھ کہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کہا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انڈیا اور امریکہ دوست ہیں لیکن گذشتہ کئی برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت نہایت محدود رہی ہے کیونکہ انڈیا نے درآمدی اشیا پر ٹیرف اتنے زیادہ مقرر کر رکھے ہیں جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔
ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیے گئے بیان میں ٹرمپ نے لکھا ’انڈیا کی جانب سے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے سخت اور غیر اقتصادی تجارتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا روس سے بڑی مقدار میں دفاعی سازوسامان خرید رہا ہے۔ اور ایسے وقت میں جب دنیا چاہتی ہے کہ روس یوکرین میں قتل و غارت بند کرے، انڈیا توانائی کی خریداری میں چین کے ساتھ روس کا سب سے بڑا خریدار بنا ہوا ہے۔‘
ٹرمپ نے مزید لکھا ’یہ سب چیزیں ٹھیک نہیں ہیں۔ انڈیا کو ان تمام اقدامات کی قیمت چکانی ہو گی، اسے 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ اضافی جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا جو یکم اگست سے نافذ ہو گا۔‘
بعدازاں ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ ’آپ نے انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف کے علاوہ اضافی جرمانہ عائد کی جانے کی بات کی ہے۔ یہ اضافی پینلٹی یا جرمانہ کیا ہو گا اور کیا یہ دیگر ممالک پر بھی عائد کی گئی ہے؟‘
اس کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’انڈیا برکس کا رُکن ملک ہے جو کہ درحقیقت ایک امریکہ مخالف بلاک یا گروہ ہے۔ برکس امریکی کرنسی ڈالر پر حملہ آور ہے، اور ہم کسی کو بھی ڈالر پر حملہ آور نہیں ہونے دیں گے۔‘ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اضافی جرمانہ انڈیا کے برکس کے رُکن ہونے اور امریکہ کے ساتھ تجارت میں تجارتی خسارہ کے باعث عائد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ برکس نامی گروپ اپنے آپ کو عالمی گورننس کے مغربی ماڈل کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کے رُکن ممالک میں چین اور روس بھی شامل ہیں جبکہ انڈیا بھی اس کا باقاعدہ ممبر ہے۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم مودی میرے اچھے دوست ہیں مگر وہ ہمارے ساتھ کچھ خاص بزنس نہیں کرتے ہیں، وہ ہمیں بہت کچھ فروخت کرتے ہیں مگر ہم سے کچھ خریدتے نہیں ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انڈیا درآمدات پر بہت زیادہ ٹیرف عائد کرتا ہے، شاید دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ۔ ہم انڈیا سے بات کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہو گا۔‘ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق مکمل تفصیلات رواں ہفتے کے آخر تک سامنے آ جائیں گی۔
خیال رہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں غیر ملکی مصنوعات پر عائد کیے جانے والا ٹیکس دو اعشاریہ دو فیصد، چین میں تین فیصد، جاپان میں ایک اعشاریہ سات فیصد جبکہ انڈیا میں امریکی مصنوعات پر عائد کیے جانے والا ٹیکس 12 فیصد ہے۔

امریکہ کی ’ریسیپروکل ٹیرف‘ (جوابی محصولات) کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے صرف دو دن پہلے منگل کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اشارہ دیا تھا کہ انڈیا کو اضافی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ ان کے مطابق انڈیا نے امریکہ پر دنیا کے کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ٹیرف لگا رکھے ہیں اور اب جب وہ اقتدار میں ہیں تو وہ کسی ملک کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ایئر فورس ون طیارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے جو باتیں کیں اُن سے یہی تاثر ملا تھا کہ انڈیا کی جانب سے ٹیرف کم کروانے کی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔
اس سے پہلے بھی ٹرمپ کہہ چکے تھے کہ جو ممالک امریکہ کے ساتھ انفرادی تجارتی معاہدے نہیں کریں گے، اُنھیں 15 سے 20 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
25 فیصد ٹیرف کا انڈیا کی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

انڈیا میں پہلے ہی غیر ملکی مصنوعات پر عائد ٹیکس کی شرح کافی بلند ہے اور اس میں مزید اضافہ ملک کی معیشت کے لیے سنگین نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
اگرچہ انڈیا کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن عالمی منڈی میں اس کا حصہ صرف 1.5 فیصد ہے، جو نئی دہلی کے لیے تجارتی خسارے کے مسئلے کو اور بھی پیچیدہ اور حل کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔
رواں برس مارچ میں اندرا گاندھی انسٹٹیوٹ آف دویلپمنٹ ریسرچ سے منسلک راجیسوری سینگپتا نے بی بی سی نیوز کے لیے سوتک بسواس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور ایسے میں ٹیرف کی یہ جنگ ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ چین یہ جنگ برداشت کر سکتا ہے کیونکہ اس کی برآمدات بہت زیادہ ہیں لیکن ہم عالمی مارکیٹ میں صرف ایک چھوٹا حصہ رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی تجارتی تنازع ہمیں دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچائے گا۔‘
انڈیا نے کچھ درآمدی اشیا جیسے بوربن وِسکی اور موٹر سائیکلوں پر ٹیرف کم کیے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ کو انڈیا کے ساتھ تجارت میں اب بھی 45 ارب ڈالر (تقریباً 33 ارب پاؤنڈ) کا خسارہ ہے جسے صدر ٹرمپ کم کرنا چاہتے ہیں۔
کیا روس سے دفاعی ساز و سامان کی خریداری معاملے میں انڈیا امریکہ کی دھمکی کے آگے جھکے گا؟
ڈاکٹر راجن کمار دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشیئن سٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ بی بی سی ہندی کے لیے رجنیش کمار سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ٹرمپ تیل کے معاملے پر سختی کرتے ہیں تو انڈیا اس معاملے میں کچھ نرمی دکھا سکتا ہے۔ نرمی دکھانے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت انڈیا اپنی کل تیل کی درآمدات کا 40 فیصد روس سے خرید رہا ہے جسے کم کر کے 20 فیصد تک لایا جا سکتا ہے تاکہ ٹرمپ کو راضی کیا جا سکے۔‘
انڈیا کے پیٹرولیم وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے بھی اسی مہینے اس جانب اشارہ دیا تھا۔
نئی دہلی میں منعقدہ انرجی ڈائیلاگ 2025 میں ہردیپ پوری نے کہا تھا کہ ’ہم کسی دباؤ میں نہیں ہیں۔ انڈیا کی تیل کی درآمدات کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرتیں۔ ہمیں اس پورے معاملے پر کوئی تشویش نہیں۔ اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو ہم اس کا حل نکال لیں گے۔ تیل کی سپلائی میں کوئی مسئلہ نہیں۔‘
یعنی ہردیپ سنگھ پوری کا کہنا تھا کہ روس کے علاوہ بھی انڈیا کے پاس تیل کی فراہمی کے لیے دیگر متبادل موجود ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دفاعی ساز و سامان کے معاملے میں انڈیا کیا کرے گا؟
ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں ’یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انڈیا ٹرمپ کی دفاعی سازوسامان کی خریداری پر دھمکی کے آگے نہیں جھکے گا۔ دراصل ٹرمپ چاہتے ہیں کہ انڈیا روس کے بجائے امریکہ سے دفاعی ہتھیار خریدے۔ لیکن انڈیا ایسا نہیں کرے گا کیونکہ روس انڈیا کو صرف ہتھیار نہیں دیتا بلکہ اُن کی ٹیکنالوجی بھی فراہم کرتا ہے، جبکہ امریکہ صرف ہتھیار بیچتا ہے، ٹیکنالوجی نہیں دیتا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کی عوامی رائے ٹرمپ اور امریکہ کے خلاف منفی ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر ’آپریشن سندور‘ کے بعد۔ اور ایک جمہوری ملک میں کوئی بھی حکومت عوامی رائے کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتی۔‘
روس کی حمایت اور آج کا امریکی دباؤ: انڈیا کس دوراہے پر کھڑا ہے؟
سنہ 1971 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان 13 روزہ جنگ ہوئی تھی اور اُس وقت سوویت یونین واحد طاقت تھی جو کھل کر انڈیا کے ساتھ کھڑی تھی۔ اگست 1971 میں انڈیا کی اُس وقت کی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے سوویت یونین کے ساتھ ’امن، دوستی اور تعاون کا معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت سوویت یونین نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر انڈیا پر جنگ مسلط ہوئی تو وہ نہ صرف سفارتی حمایت فراہم کرے گا بلکہ ہتھیاروں کے ذریعے بھی انڈیا کا ساتھ دے گا۔ برسوں پر محیط اس تعلق کو دیکھتے ہوئے روس انڈیا کا ایک قابلِ اعتماد اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، تاریخی طور پر امریکہ نے پاکستان کو انڈیا پر زیادہ ترجیح دی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ روس سے تعلقات کے معاملے پر امریکہ کی حالیہ دھمکیوں کا انڈیا پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی نے بی بی سی ہندی کے لیے رجنیش کمار سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’دفاعی تعاون کے میدان میں انڈیا کے پاس روس کے علاوہ بہت کم متبادل ہیں۔ آج بھی انڈیا کے 60 سے 70 فیصد دفاعی ہتھیار سوویت یونین یا روس سے حاصل کردہ ہیں۔ ان ہتھیاروں کی دیکھ بھال، مرمت اور پرزہ جات کی فراہمی کے لیے انڈیا مکمل طور پر روس پر انحصار کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انڈیا مستقبل میں روس سے نیا سامان نہ خریدے، لیکن اگلے دس سال تک موجودہ ساز و سامان کی دیکھ بھال روس کے تعاون کے بغیر تقریباً ناممکن ہو گی۔‘
لیکن مسئلہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔
اگر انڈیا امریکی دباؤ کے تحت روس سے دوری اختیار کرتا ہے تو اس کا ایک اہم جغرافیائی اثر یہ ہو سکتا ہے کہ روس، چین پر مزید انحصار کرنے لگے اور یہ انڈیا کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال میں یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ روس پاکستان کے بھی قریب ہو جائے۔
چین پر روس کا بڑھتا انحصار کسی بھی صورت انڈیا کے مفاد میں نہیں۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ روس کے کل تیل برآمدات کا 47 فیصد حصہ صرف چین کو جاتا ہے۔ روس کے پاس چین کے علاوہ اب کوئی بڑا متبادل بھی نہیں بچا۔ ایسے میں انڈیا کو اپنے اس پرانے دفاعی اتحادی کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔
کیا امریکہ، انڈیا کے لیے روس کا متبادل بن سکتا ہے؟
دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ انڈیا کے لیے روس کا متبادل بن سکتا ہے۔ اگر روسی ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے پر انڈیا اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو پاتا تو انڈیا کو ایک بہت پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی نئے دفاعی ساز و سامان کو اپنے نظام میں شامل کرنا نہایت مہنگا اور وقت طلب عمل ہوتا ہے۔ انڈیا 1960 کی دہائی سے سوویت یا روسی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں اچانک امریکی ہتھیار شامل کرنا آسان نہیں ہو گا۔‘
راہول بیدی مزید وضاحت کرتے ہیں ’آج انڈین فوج میں کچھ اٹیک ہیلی کاپٹر، ہیوی ہیلی کاپٹر اور ٹرانسپورٹ طیارے امریکی ہیں۔ لیکن یہ بھی 2010 یا 2011 کے بعد شامل ہونا شروع ہوئے۔ اب 15 سال گزر چکے ہیں، اس لیے یہ سازوسامان فوج میں پوری طرح ضم ہو چکا ہے۔ لیکن اگر آج انڈیا روسی ہتھیاروں کی جگہ امریکی ہتھیار خریدے، تو یہ نہایت مہنگا پڑے گا۔ اور ان کو شامل کرنے، فوجی تربیت دینے، سروسنگ اور دیکھ بھال میں بہت وقت اور پیسہ لگے گا۔‘
لیکن بات صرف تربیت، مرمت اور سروسنگ تک محدود نہیں، بلکہ یہاں ایک اور اہم پہلو بھی ہے اور وہ ہے بھروسہ۔
ڈاکٹر راجن کمار کے مطابق انڈیا امریکہ پر اتنی آسانی سے اعتماد نہیں کرے گا، چاہے امریکہ جتنی بھی یقین دہانیاں کیوں نہ کروا لے۔
’جب انڈیا نے ایٹمی تجربات کیے تھے تو امریکہ نے اس پر پابندیاں عائد کر دیں لیکن روس نے ایسا نہیں کیا۔ تاریخی طور پر انڈیا کو امریکہ پر مکمل بھروسہ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ انڈین عوام کی ہمدردی زیادہ تر روس کے ساتھ دیکھی جاتی ہے۔‘
’اس کے علاوہ امریکہ میں جب حکومتیں بدلتی ہیں تو پالیسیوں میں بھی اکثر مکمل یو ٹرن آ جاتا ہے، جبکہ روس میں ولادیمیر پوتن گذشتہ 23 برسوں سے اقتدار میں ہیں اور انڈیا کے لیے روس کی پالیسی میں ایک تسلسل موجود رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’روسی جمہوریت پر خواہ جتنی بھی بحث ہو، لیکن انڈیا کے لیے روس خاص طور پر پوتن کی قیادت میں ایک مستحکم اور فائدہ مند شراکت دار رہا ہے۔‘
ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں ’انڈیا پہلے ہی چین اور پاکستان کی دوستی سے پریشان ہے۔ ایسے میں وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ روس بھی اس گٹھ جوڑ کا حصہ بن جائے۔ اس کے علاوہ اگر ہم روس سے دور ہوتے ہیں تو ایران میں انڈیا کا چابہار منصوبہ کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا اور نارتھ ساؤتھ کوریڈور کا کام بھی ادھورا رہ جائے گا۔‘
ڈاکٹر کمار مزید کہتے ہیں کہ اس تناظر میں انڈیا کے لیے روس کو ناراض کرنا نہ صرف اس کے دفاعی نظام بلکہ اس کی علاقائی سفارت کاری اور معاشی منصوبوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔