پاکستان کی آٹو موٹیو انڈسٹری ایک بار پھر تنقید کی زد میں آگئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی تازہ آڈٹ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں کام کرنے والے کار مینوفیکچررز نہ صرف گاڑیوں کی برآمدات میں ناکام رہے بلکہ صارفین کے بنیادی حقوق کا بھی تحفظ نہیں کر سکے۔
رپورٹ کے مطابق، کمپنیوں نے صارفین سے مکمل ادائیگیاں اور بھاری رقوم وصول کرنے کے باوجود گاڑیاں وقت پر فراہم نہیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بکنگ، ڈلیوری اور رقوم کی واپسی سے متعلق درست ریکارڈ بھی پیش نہ کیا گیا۔ "اون منی" کی شکل میں ناجائز رقم وصول کرنے اور گاڑیوں کی تاخیر سے ترسیل کو رپورٹ نے انتہائی سنگین مسائل قرار دیا ہے۔
دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا کہ 20 فیصد ڈاؤن پیمنٹ پر کار بکنگ پالیسی کی مسلسل خلاف ورزی کی گئی۔ اس کے علاوہ، تاخیر سے گاڑی ملنے والے صارفین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انتظامیہ کی غفلت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ پالیسی پر عمل درآمد میں بڑی کمزوریوں کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مینوفیکچررز اور اسمبلرز گاڑیوں کی ایکسپورٹ کے حوالے سے مقرر کیے گئے اہداف پورے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ 5 سالہ پالیسی کے تحت گاڑیوں اور پرزہ جات کی 10 فیصد لازمی برآمدات کا ہدف مقرر تھا، لیکن اس میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔
انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کی نگرانی میں بھی سنگین خامیاں سامنے آئیں۔ ایک طرف گاڑیوں کی برآمدات کا ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا، تو دوسری جانب سی کے ڈی کٹس کو بورڈ کی منظوری کے بغیر درآمد کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس عمل نے پالیسی کی شفافیت پر مزید سوالات کھڑے کر دیے۔
آڈیٹر جنرل نے سفارش کی ہے کہ ناکامی کی وجوہات جاننے کے لیے جامع فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی جائے اور مستقبل میں برآمدات بڑھانے کے لیے پالیسی پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ ملک کی آٹو انڈسٹری کو محض منافع کمانے کے بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ صنعت کا مستقبل مزید غیر یقینی ہو سکتا ہے۔