پاکستان میں بجلی کے صارفین جہاں اپنے بلوں میں متعدد ٹیکس ادا کرتے ہیں، وہیں گذشتہ کچھ عرصے سے وہ گردشی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے فی یونٹ تین روپے 23 پیسے سرچارج بھی ادا کر رہے ہیں۔تاہم گذشتہ روز جمعرات کو وفاقی حکومت نے اعلان کیا کہ بجلی کے شعبے پر جو بہت بڑا قرضہ چڑھا ہوا ہے اسے کم کرنے کے لیے 1225 ارب روپے کا قرض لیا جائے گا۔اس رقم سے پرانے قرضے کی کچھ ادائیگی کی جائے گی اور باقی کو نئے طریقے سے ترتیب دیا جائے گا تاکہ بجلی کمپنیوں پر مالی بوجھ کم ہو سکے۔
جس کے بعد بظاہر یہ تاثر ملا کہ بجلی صارفین جو تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج ادا کر رہے ہیں، شاید اب انہیں یہ رقم مزید ادا نہ کرنا پڑے۔ لیکن حقیقت میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ وفاقی حکومت نے گردشی قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے صارفین کے بجلی کے بلوں میں فی یونٹ تین روپے 23 پیسے بطور ڈیٹ سروس چارجز عائد کیے تھے۔اس سرچارج کی مدت جولائی 2025 تک ختم ہونا تھی مگر اب اسے بڑھا کر آئندہ چھ برس تک وصول کیا جائے گا۔ یعنی حکومت کے اس فیصلے کے بعد صارفین کے بلوں میں کمی تو نہیں آئے گی، البتہ ماہرین کے مطابق اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔حکومت کا نیا اقدام کیا ہے؟بجلی شعبے کے گردشی قرضے کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی وزیرِ پانی و بجلی سردار اویس لغاری نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ ’حکومت نے بینکوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت 1225 ارب روپے کی فنانسنگ سے گردشی قرضے کو ری سٹرکچر اور جزوی طور پر ادا کیا جائے گا، جبکہ باقی حصہ نئے قرضے کی صورت میں ہو گا تاکہ واجبات ادا کیے جا سکیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’صارفین جو پہلے ہی ڈیٹ سروس چارجز ادا کر رہے ہیں، اب وہی سرچارج صرف سود کی ادائیگی نہیں بلکہ اصل قرض اتارنے کے لیے بھی استعمال ہو گا، تاکہ قرض کو کم کیا جا سکے۔‘وزارتِ بجلی کے مطابق اس منصوبے سے صارفین پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور آئندہ چھ برس کے اندر پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ تقریباً صفر کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔بجلی شعبے کا گردشی قرضہ کیا ہوتا ہے؟گردشی قرضہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صارفین سے پوری وصولی نہ ہو یا حکومت سبسڈی کی وجہ سے اصل لاگت ادا نہ کرے۔ اس کے نتیجے میں تقسیم کار کمپنیاں بجلی پیدا کرنے اور تیل و گیس فراہم کرنے والے اداروں کو ادائیگی نہیں کر پاتیں۔یوں یہ قرض کا سلسلہ پورے نظام میں پھیل کر پیداوار کو متاثر کرتا ہے، لوڈشیڈنگ اور بجلی کے نرخ بڑھتے ہیں اور حکومت مزید قرض لینے پر مجبور ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت یہ قرض 1600 ارب روپے سے زائد ہے۔
اس سرچارج کی مدت جولائی 2025 تک ختم ہونا تھی، مگر اب اسے بڑھا کر آئندہ چھ برس تک وصول کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)
اردو نیوز نے حکومت کے اس اقدام کے حوالے سے بجلی کے شعبے کے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ فیصلہ واقعی بجلی صارفین کے لیے فائدہ مند ہے یا اس سے ان پر مزید بوجھ پڑے گا؟
پاکستان میں توانائی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ماہر علی خضر نے بتایا کہ ’حکومت کے اس فیصلے سے بجلی صارفین کو کسی قسم کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بلکہ امکان ہے کہ فی یونٹ تین روپے 23 پیسے سرچارج مزید بڑھ سکتا ہے۔‘انہوں نے وضاحت کی کہ ’صارفین یہ سرچارج اب تک سود کی مد میں ادا کر رہے تھے، لہٰذا یا تو اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا یا کم از کم اس میں کمی آتی۔ لیکن موجودہ پالیسی کے تحت یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور اگر بجلی کی طلب یا پیداوار میں کمی آتی ہے تو اس چارج میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔‘علی خضر کے مطابق ’حکومت کے اس فیصلے سے بجلی کمپنیوں کو تو وقتی ریلیف مل سکتا ہے، لیکن جب تک لائن لاسز، بجلی چوری اور انتظامی نااہلیوں کو کم نہیں کیا جاتا، بجلی سستی ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے صارفین کو اس اقدام سے براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘اسی طرح انرجی امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی اور ماہر خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ’تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج جو اس برس جولائی میں ختم ہونا چاہیے تھا، حکومت کے نئے فیصلے کے بعد اب آئندہ چھ برس تک صارفین کو ادا کرنا پڑے گا۔‘
گردشی قرضہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صارفین سے پوری وصولی نہ ہو یا حکومت سبسڈی کی وجہ سے اصل لاگت ادا نہ کرے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)
اُنہوں نے بتایا کہ ’حکومتی معاہدے کے تحت بینکوں سے لیا گیا قرض بجلی کمپنیوں کے مالی معاملات کو وقتی طور پر بہتر ضرور کرے گا، لیکن قرض لے کر گردشی قرضہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ضروری ہے۔‘
خلیق کیانی کا مزید کہنا تھا کہ ’اصولی طور پر صارفین وہ سرچارج اپنی مقررہ مدت تک ادا کر چکے تھے، لہٰذا اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ تاہم نئے معاہدے کے تحت اب انہیں مزید چھ برس تک یہ سرچارج دینا ہو گا، جس سے بجلی کے بھاری بلوں کا بوجھ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘