سفارتی تعلقات کی بحالی سے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے تک، سعودی میڈیا کا ایران کے لیے بدلتا بیانیہ

سخت ریاستی کنٹرول میں کام کرنے والے سعودی میڈیا نے حالیہ مہینوں کے دوران علاقائی حریف ایران کے ساتھ پیچیدہ تعلق کے بارے میں بیانیہ تبدیل کیا ہے۔

سخت ریاستی کنٹرول میں کام کرنے والے سعودی میڈیا نے حالیہ مہینوں کے دوران علاقائی حریف ایران کے ساتھ پیچیدہ تعلق کے بارے میں بیانیہ تبدیل کیا ہے۔

گذشتہ 10 ماہ کے دوران ٹی وی پروگرامز اور میڈیا پر تبصروں کے وسیع سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغامات میں یکسانیت نہیں ہے جبکہ لہجے میں نرمی آئی ہے۔

سعودی میڈیا میں ایران کی کوریج کے دوران دفاع جیسے شعبہ میں باہمی تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ ایران کی مذمت بھی کی جاتی رہی ہے۔

ایران پر تنقید کی بنیاد نہ صرف علاقائی پراکسی گروہوں کے لیے تہران کی حمایت پر مرکوز تھی بلکہ قطر میں امریکی ایئر بیس العدید پر فضائی حملے پر بھی ایران کی مخالفت کی گئی۔ جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کے دوران ایران نے العدید فضائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کیسے بدل گئے

چاہے شام، لبنان اور یمن میں کسی پراکسی کی حمایت کا سوال ہو، برسوں تک ریاض اور تہران کے درمیان علاقائی اثر و رسوخ کی دوڑ رہی ہے۔

مارچ 2023 کے دوران دونوں فریقین کے درمیان چینی ثالثی میں تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا جس نے سفارتی رابطوں اور کم تناؤ والی حکمت عملی کی راہ ہموار کی۔

تاہم دونوں ملکوں کے درمیان اب بھی کئی حل طلب مسائل ہیں کیونکہ علاقائی استحکام کے بارے میں دونوں کے الگ الگ نظریات ہیں۔

ایران کا پراکسی لڑائیوں میں کردار رہا ہے۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثیوں اور غزہ میں حماس کی حمایت کی ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی علاقائی تناؤ میں کمی کی حکمت عملی رہی ہے اور اس نے اکثر لڑائیوں میں شریک ہونے سے گریز کیا ہے۔

سعودی عرب کی یہ حکمت عملی معاشی ترقی اور تیل کی آمدن پر انحصار کم کرنے کے لیے ویژن 2030 سے جڑی ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران ایران کے علاقائی اثر و رسوخ میں کمی کے ساتھ ساتھ ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔

اس تناظر میں حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائیاں بھی اہم ہیں۔ شام میں ایرانی حمایت یافتہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے خطے میں تہران کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچا ہے۔

بدلتا بیانیہ

ریاض اور تہران کے درمیان برف پگھلنے کے بعد سعودی میڈیا نے ایران سے متعلق ہفاہمت کا بیانیہ اپنایا ہے۔ 2023 میں تعلقات بحال ہونے پر اس کی کوریج محتاط رہی تھی اور اس کی جانب سے تہران پر تنقید بھی جاری رکھی گئی تھی۔

معاہدے کے بعد شکوک و شہبات پائے جاتے تھے جو کہ اس وقت باہمی تعلقات کے انداز کا عکاسی کرتا تھا۔

تاہم گذشتہ 10 ماہ کے دوران مختلف طرح کے بیانیے سامنے آئے ہیں۔

سعودی عرب، ایران
BBC

تعاون

اپریل میں سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان آل سعود نے تہران کا تاریخی دورہ کیا جس کے بعد سعودی عرب کے مقامی ذرائع ابلاغ نے تعاون اور 'باہمی اعتماد' پر زور دیا۔

18 اپریل کو اخبار الریاض کے مدیر ہانی وفا نے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب اور ایران دو طاقتور ممالک ہیں اور 'تعاون کے ذریعے وہ مشترکہ طور پر کئی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے بڑا فائدہ خطے میں استحکام کی واپسی ہوگا اور پائیدار ترقی کی بنیاد تعاون اور باہمی اعتماد پر ہوگی۔

صحافی جاسر الجاسر نے اشراق نیوز ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ اس دورے سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں ایران نے خطے میں اپنی برتری مسلط کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا جس کے بعد ملک کو سلامتی کا خطرہ درپیش ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ایران کی اقتصادی بحالی اور عرب خطے میں واپسی کے لیے سعودی حمایت درکار ہوگی۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ پر سعودی موقف

جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان لڑائی کے دوران سعودی عرب نے محتاط رویہ اپنایا اور تناؤ میں کمی پر زور دیا۔ یہ موقف مقامی میڈیا کی کوریج میں بھی واضح تھا۔

ایران پر اسرائیلی بمباری کے بعد ریاض نے ابتدا میں تہران کی حمایت کی۔ تاہم کچھ روز بعد اس نے قطر میں العدید فضائی اڈے پر ایرانی جوابی کارروائی کی مذمت کی۔ قطر کا یہ اڈہ امریکی افواج کے زیرِ انتظام ہے۔

العربیہ نے 14 جون کو رپورٹ کیا کہ ایرانی صدر کو بذریعہ فون کال ولی عہد محمد بن سلمان نے بتایا تھا کہ 'اسرائیلی حملوں نے بحران کے خاتمے کے لیے موجودہ مذاکرات کو خراب کیا ہے اور کشیدگی میں کمی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے۔'

23 جون کو سعودی میڈیا بشمول العربیہ نے ایرانی حملے کی مذمت کی کوریج کی اور وزارت خارجہ کے اس بیان کو نقل کیا کہ 'سعودی عرب قطر پر ایرانی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔'

روزنامہ الشرق الاوسط نے سعودی عرب کے پیچیدہ موقف پر تجزیے شائع کیے۔

24 جون کو کالم نگار مشاری الزیدی نے سرکاری مؤقف دہراتے ہوئے مملکت کی مذمت کو دہرایا اور اسے وسیع تر علاقائی تناظر میں بیان کیا۔

انھوں نے لکھا کہ سعودی وزارت خارجہ کے بیان سے واضح ہے کہ 'خلیج کے عوام کا تہران، واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان جاری لڑائی سے کوئی سروکار نہیں، سوائے اس کے کہ خلیج کی سلامتی پر سمجھوتہ کیے بغیر جنگ کی آگ بجھائی جائے۔'

سعودی کالم نگار عبداللہ بہزاد العتيبی نے 22 جون کو اپنے تجزیے میں تہران پر کڑی تنقید کی۔ انھوں نے ایران پر اسرائیلی بمباری کی مذمت کی مگر کہا کہ 'کوئی بھی بڑی یا چھوٹی طاقت ایران کی خاطر مداخلت کے لیے تیار نہیں۔'

ایران کا براہ راست نام لیے بغیر انھوں نے کہا کہ 'ہمارے خطے میں فریب کو فروغ دینے والے۔۔۔ لوگوں کو حقائق نہیں بتا رہے۔ بلکہ وہ حقائق کے منافی حقیقت کو فروغ دے رہے ہیں۔'

پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا ردعمل

نو ستمبر کو دوحہ پر اسرائیل کے اچانک حملے نے خطے میں ہلچل مچائی جس سے سعودی عرب کے خدشات بھی بڑھ گئے۔

خطرے کی بلند سطح پر سعودی عرب نے 17 ستمبر کو پاکستان کے ساتھ ایک 'سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے' پر دستخط کیے جسے سعودی عرب کی سلامتی کے لیے اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا۔

معاہدے سے صرف ایک دن قبل سعودی عرب نے ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کی میزبانی کی۔

اس دوران سعودی میڈیا پر ایک جانب تہران کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کی جاتی رہی جبکہ دوسری طرف خطے میں اس کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی ہوئی۔

لاریجانی کے دورہ ریاض پر تبصرہ کرتے ہوئے العربیہ کے ایرانی امور کے ماہر مسعود الفک نے کہا کہ 'ایران کی نئی (حکومت کی) سفارت کاری چلانے والے سعودی عرب کو ایک اہم ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایران اپنی علاقائی پالیسی کو اپنی سیاسی، سلامتی اور اقتصادی جہتوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔'

اشرق الاوسط نے رپورٹ کیا کہ لاریجانی کے دورے کے دوران بات چیت 'سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے' پر مرکوز تھی۔

دریں اثنا دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد انڈیپینڈنٹ عرب پر تجزیہ کیا گیا کہ ترکی، سعودی عرب اور ایران جیسی علاقائی طاقتوں کو متحد ہونا ہوگا۔ اس نے لاریجانی کے دورے کو اسرائیل کے خلاف 'اسلامی اتحاد' کے قیام کے لیے ایک قدم قرار دیا۔ اس نے کہا کہ علاقائی استحکام کی بحالی اور معاشی شراکت کے لیے ریاض نے تناؤ میں کمی کی پالیسی اپنائی ہے۔

جدہ میں قائم گلف ریسرچ سینٹر کے سربراہ عبدالعزیز بن صقر نے سعودی میڈیا کو بتایا کہ 'دونوں ممالک کے رہنماؤں میں سلامتی کو درپیش سنگین خطرات کے بارے میں مشترکہ آگاہی ہے۔'

تاہم پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کے بعد سعودی میڈیا میں ایک زیادہ زوردار اور تنقیدی لہجہ ابھرا۔

العربیہ ٹی وی کی ویب سائٹ کے لیے 22 ستمبر کے ایک تجزیے میں محمد السعید نے لکھا کہ یہ معاہدہ 'مشرق وسطیٰ میں طاقت اور ڈیٹرنس کو نئی شکل دے گا۔ کئی دہائیوں سے مِس کیلکولیشن، لاپرواہی اور (عالمی) طاقتوں کے فوجی تکبر کی وجہ سے اس کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تسلط اور سیاست کے استعمال سے اپنے عزائم مسلط کر سکتے ہیں۔'

ایران یا اس کی پراکسیوں کا براہ راست نام لیے بغیر انھوں نے پورے خطے میں 'طاقت کی شکل دینے اور دباؤ ڈالنے' کے لیے 'تنظیموں اور تحریکوں' کے استعمال کی مذمت کی۔

غزہ پر مؤقف تنقید کی زد میں

سعودی عرب کا ایران کے تئیں بدلتے ہوئے موقف کی عکاسی اس کی میڈیا کوریج میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی دوسری برسی سے ہوئی، جسے 'طوفان الاقصیٰ' کہا جاتا ہے۔

اشرق الاوسط نے اپنے تبصروں میں اسرائیل، ایران اور ایرانی پراکسی گروہوں پر تنقید کی۔

ممتاز سعودی صحافی طارق الحمید آٹھ اکتوبر کو کالم لکھا جس کی سرخی تھی کہ 'وہ طوفان جس نے لوگوں کو نگل لیا۔'

حماس کے 7 اکتوبر کے آپریشن کے بعد کے دو سالوں کی عکاسی کرتے ہوئے الحمید نے لکھا کہ اس واقعے نے خطے کو نئی شکل دی ہے، خاص طور پر 'لاقانونیت والے علاقوں' میں جہاں ریاستی عملداری 'ختم ہو چکی ہے'۔

انھوں نے اس تناظر میں لبنان، شام، عراق اور یمن کا ذکر کیا اور لکھا کہ یہ سب ایران کے اثر و رسوخ کے گرد گھومتے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US