"میں واحد زندہ بچنے والا ہوں۔ اب تک یقین نہیں آتا۔ یہ ایک معجزہ ہے۔ لیکن میں نے اپنے بھائی کو کھو دیا ہے۔ وہ میرا سہارا تھا۔ میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ اب میں کمرے میں بیٹھا رہتا ہوں، اپنی بیوی اور بیٹے سے بھی بات نہیں کرتا۔ بس تنہا رہنا چاہتا ہوں۔ جسم اور دماغ، دونوں تکلیف میں ہیں۔ ہر دن میرے لیے اذیت ہے۔"
"حادثے کے بعد میری زندگی بدل گئی ہے۔ میں نہ ٹھیک سے چل سکتا ہوں، نہ کام کر سکتا ہوں، نہ ڈرائیو۔ ماں پچھلے چار ماہ سے دروازے کے باہر خاموش بیٹھ رہی ہیں، کسی سے بات نہیں کرتیں۔ ہم سب ٹوٹ چکے ہیں۔ ہر رات جاگتا ہوں، ذہنی تکلیف ختم نہیں ہوتی۔ ہر دن پورے خاندان کے لیے ایک زخم ہے۔"
بھارت کے شہر احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی بدقسمت پرواز میں 241 مسافروں اور عملے میں سے زندہ بچنے والا واحد شخص ویشواس کمار رمیش، اب ذہنی اور جسمانی اذیت کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ جون میں ہونے والے اس حادثے نے نہ صرف سیکڑوں خاندانوں کو غمگین کیا بلکہ دنیا کو اس نوجوان کی حیرت انگیز بقا کی ویڈیو بھی دکھائی، جس میں وہ شعلوں اور دھویں کے درمیان چلتا دکھائی دیا۔
لیسٹر واپسی کے بعد رمیش شدید ذہنی دباؤ اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے اور اپنے بیوی بچے سے بھی رابطہ نہیں رکھتے۔ ان کے قریبی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی موت کے صدمے اور اس خوفناک حادثے کے مناظر سے باہر نہیں آ سکے۔ ان کی والدہ بھی غم کی شدت کے باعث خاموشی کی دنیا میں چلی گئی ہیں۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیارے کے اڑان بھرنے کے چند سیکنڈ بعد ہی انجنوں میں فیول سپلائی منقطع ہو گئی تھی، جس کے باعث بوئنگ 787 تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 169 بھارتی شہری، 52 برطانوی مسافر اور دیگر افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ زمین پر موجود 19 بے گناہ لوگ بھی لقمۂ اجل بنے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ واحد زندہ بچ جانے والا مسافر اب بھی مکمل علاج سے محروم ہے۔ ان کے گھر  والوں کا کہنا ہے کہ ایئر انڈیا نے اب تک صرف عارضی ادائیگی کی ہے، جو اس کی ضرورت کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ خاندان  کے مطابق ان کی فشنگ بزنس بھی تباہ ہو چکی ہے اور وہ مالی بحران کا شکار ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ معاوضے، علاج اور نفسیاتی مدد کے لیے بات ہو سکے۔ لیکن ان کے مطابق ایئر لائن نے اب تک سنجیدہ رسپانس نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جس ادارے کی ذمہ داری ہے وہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
دوسری طرف ایئر انڈیا کا مؤقف ہے کہ کمپنی کے سینئر نمائندے متاثرہ خاندانوں سے رابطے میں ہیں اور ملاقات کی پیشکش پہلے ہی کی جا چکی ہے۔ تاہم رمیش کے گھر والے اب بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب ایک انسان معجزاتی طور پر بچ کر بھی اس حال میں ہو، تو کیا صرف تعزیت اور رسمی بیانات کافی ہیں، یا نظام میں کچھ بدلنا ہو گا؟