’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی کی سیٹ کے اندر خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟

اس سارے معاملے کا آغاز 18 اکتوبر 2025 کو اُس وقت ہوا جب سرکل تھانہ انویسٹیگیشن کے ڈی ایس پی عثمان حیدر نے اپنی مدعیت میں تھانہ برکی میں ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی اہلیہ اور بیٹی لاپتا ہیں۔
تصویر
Getty Images
لاہور پولیس کا دعویٰ ہے کہ سامنے آنے والے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈی ایس پی ہی اپنی اہلیہ اور بیٹی کے مبینہ قاتل ہیں (فائل فوٹو)

انتباہ: اس مضمون میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’رات کے وقت ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا فون پانچ گھنٹے کے لیے کیسے بند ہو سکتا ہے؟‘

یہ وہ سوال تھا جس نے لاہور پولیس کو ایک دوہرے قتل کی واردات کی تفتیش کا رُخ بدلنے اور اُس ملزم تک پہنچنے کی راہ دکھائی جو خود پولیس میں افسر ہیں۔

اس سارے معاملے کا آغاز 18 اکتوبر 2025 کو اُس وقت ہوا جب سرکل تھانہ انویسٹیگیشن کے ڈی ایس پی عثمان حیدر نے اپنی مدعیت میں تھانہ برکی میں ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی اہلیہ اور بیٹی لاپتا ہیں۔

اس ایف آئی آر کے مطابق ڈی ایس پی عثمان حیدر نے پولیس کو بتایا کہ اُن کی اہلیہ اور بیٹی 27 ستمبر 2025 سے لاپتا ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ اُن دونوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق عثمان حیدر نے پولیس کو بتایا کہ 27 ستمبر کی رات جب وہ اپنے گھر پہنچے تو وہاں تالہ لگا تھا اور یہ کہ انھوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو ہر جگہ تلاش کیا اور اپنی سسرال سے بھی رابطہ کیا تاہم وہ انھیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔

پولیس کے ایک حاضر سروس افسر کے اہلخانہ کی گمشدگی معمولی بات نہ تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اہم تھا کہ دونوں خواتین 27 ستمبر کو لاپتا ہوئی تھیں تو اُن کی گمشدگی کی رپورٹ 18 اکتوبر کو کیوں درج کروائی گئی اور مقدمے کے اندراج کے لیے تین ہفتے کا انتظار کیوں کیا گیا؟

اس بارے میں مقدمے کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے ماڈل ٹاؤن کے ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر ایاز حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ خواتین کی 27 ستمبر کو گمشدگی کے واقعے کے تقریباً ایک ہفتے بعد ملزم نے اُچ شریف میں اپنی سسرال سے رابطہ کیا اور انھیں اپنی اہلیہ سمیعہ اور بیٹی خنسا کی گمشدگی کے بارے میں مطلع کیا۔

’وہ اپنے سُسرال میں اپنی ساس اور سالی کے پاس گئے اور وہاں جا کر انھیں گمشدگی کی اطلاع دی۔ اہلیہ سمیعہ کے اہلخانہ کو پہلی بار گمشدگی کی خبر چار اکتوبر 2025 کو دی گئی۔ ملزم نے جا کر انھیں بتایا کہ اُن کی اہلیہ اور بیٹی روپوش ہو گئی ہیں جبکہ اُن سے یہ بھی کہا گیا شاید آپ (سسرال) لوگوں نے ہی انھیں چھپا رکھا ہے۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر ایاز حسین کے مطابق یہ اطلاع ملنے پر اُچ شریف میں بھی پولیس حرکت میں آئی۔ ’جب اُچ شریف پولیس کو پتا چلا تو انھوں نے گمشدگی سے متعلق 15 پر کال چلائی مگر چونکہ یہ وقوعہ لاہور سے متعلق تھا اس لیے اُنھوں نے اِن (سمیعہ کے اہلخانہ) کو گائیڈ کیا کہ آپ لاہور جائیں اور ان معاملات کو آگے بڑھائیں۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن کے مطابق اس کے بعد سمیعہ کی بہن تہمینہ کی جانب سے سات اکتوبر کو ایک درخواست دی گئی اور انھوں نے آٹھ اکتوبر کو اپنی بہن اور بھانجی کی گمشدگی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں بھی ایک درخواست دے دی۔

ایاز حسین کا کہنا ہے کہ ’اُس رِٹ پٹیشن اور اِس درخواست کو مدِنظر رکھتے ہوئے، لاپتا خواتین کے قانونی وارث، جو کہ ظاہری طور پر خاوند (ملزم عثمان حیدر) ہی تھے، کی مدعیت میں 18 اکتوبر کو مقدمہ درج کیا گیا۔‘

تصویر
Getty Images
ملزم نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرواتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اغوا کر لیا گیا ہے (فائل فوٹو)

تفتیش آگے کیسے بڑھی؟

اب سوال یہ ہے کہ بیوی اور بیٹی کی گمشدگی کی ایف آئی آردرج کروانے والا پولیس افسر خود شک کے دائرے میں کیسے آیا؟

ڈاکٹر ایاز حسین بتاتے ہیں کہ ’ایف آئی آر میں ڈی ایس پی کی جانب سے پولیس کو دیے گئے بیان کے تحت ابتدا میں تفتیش کا رُخ سسرال والوں کی طرف ہی تھا۔ اُن سے تفتیش کی گئی اور چیک کیا گیا کہ آیا یہ دونوں خواتین اُن کے پاس تو روپوش نہیں ہو گئیں۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن کے مطابق ’جب بھی کوئی مِسنگ پرسن ہوتا ہے، سب سے پہلے اُس کے کال ڈیٹا ریکارڈ کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو اِس مقدمے میں بھی اِسی طرح ہوا۔‘ تاہم اُن کے مطابق اس کے باوجود کوئی سراغ نہیں ملا۔

انھوں نے کہا کہ ’آپ کو پتا ہے تفتیش ہر دن، ہر لمحے اپنا رُخ بدلتی ہے۔ مگر وقت گزرتا جا رہا تھا اور یہ معاملہ ایک معمہ بنتا جا رہا تھا، اسی لیے از سر نو تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

’پولیس تفتیش کی دو حکمتِ عملیاں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ملزم کو حراست میں لے کر شواہد اکٹھے کیے جائیں اور دوسری یہ کہ پہلے شواہد اکٹھے کریں اور پھر ملزم کو گرفتار کریں۔ ہم نے دوسری تکنیک استعمال کی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اگر ہم ملزم کو پہلے گرفتار کر لیتے تو شواہد کو ختم کر دیے جانے کا خدشہ تھا۔‘

ایاز حسین کے مطابق ’دوبارہ تفتیش کا آغاز ہوا۔ ڈی ایس پی عثمان حیدر، اُن کی اہلیہ اور بیٹی کے زیرِ استعمال چھ نمبر تھے جن کا تجزیہ کیا گیا، اُن کی سی ڈی آر لی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ایک ہزار کے قریب بی پارٹیز کا تجزیہ کیا گیا، مختلف رابطہ نمبرز تھے، ایک مہینے کے لگ بھگ ہم نے اُن کی سی ڈی آر کا تجزیہ کیا۔‘

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس تجزیے کے دوران ’ایک چیز بڑی اہم سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ ڈی ایس پی نے ایف آئی آر میں جو وقوعہ بیان کیا تھا وہ 27 ستمبر کی بات تھی مگر جب ہم نے سی ڈی آر انالیسز کیا تو 25 ستمبر رات ساڑھے دس بجے سے لے کر صبح کے تین بجے تک، ڈی ایس پی عثمان حیدر کا موبائل فون پانچ گھنٹے کے لیے بند پایا گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس نکتے سے تفتیش کاروں کے کان کھڑے ہوئے۔ ’یہ بہت اہم تھا اور اس نے شک پیدا کیا کہ رات کے وقت پانچ گھنٹے کے لیے ایک حاضر سروس ڈی ایس پی کا موبائل فون کیسے آف ہو سکتا ہے؟‘

ایاز حسین کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ معاملہ تھا جس کی وجہ سے ہماری تفتیش کا رُخ مدعی مقدمہ کی طرف ہونا شروع ہوا۔‘

تصویر
Getty Images
پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملزم عثمان حیدر، اُن کی اہلیہ اور بیٹی کے زیرِ استعمال چھ نمبر کی سی ڈی آرز کا تجزیہ کیا (فائل فوٹو)

’خون کے دھبے‘

ایس پی انویسٹیگیشن ایاز حسین نے بتایا کہ مدعی کے شک کے دائرے میں آنے کے بعد ثبوتوں کی تلاش شروع ہوئی۔

’ہم نے فارینزک ٹیم بلا کر ڈی ایس پی کے اُس گھر کا مکمل معائنہ کروایا جہاں پر وہ دونوں ماں بیٹی رہتی تھیں۔ اس کے لیے الٹرا وائلٹ شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ اگر خون کا انتہائی معمولی نشان بھی ہوں تو پوائنٹ آؤٹ ہو جائے۔ ہمیں واش روم سے، بیسن سے اور بیڈ سے خون کے دھبے ملے۔ وہ بہت چھوٹے دھبے تھے لیکن ہمارے لیے اہم دریافت تھی اور ثبوت تھے۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن کا دعویٰ ہے کہ ’پھر میں سمجھتا ہوں کہ تفتیش میں انتہائی اہم موڑ اُس وقت آیا جب ڈی ایس پی کی گاڑی کا فارینزک کیا گیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب ہم نے فارینزِک کروایا تو اُن کی گاڑی کی اگلی اور پچھلی نشست کا کور تو دُھلا ہوا تھا۔ ہم کیونکہ کسی چیز کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے تو ہم نے کور پھاڑا اور اندر کے فوم کا معائنہ کیا۔ اُس کو جب دیکھا تو ہمیں دھچکا لگا کیونکہ وہ خون سے تر تھا۔ یہ ڈی ایس پی کی اپنی سرکاری گاڑی تھی تو جب یہ چیز سامنے آئی تو اب پھر اِس کے لیے بچت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔‘

ایاز حسین کا کہنا تھا کہ ’جسے کہتے ہیں نا تابوت میں آخری کیل۔ کہہ لیں کہ وہ یہ تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ گاڑی کی سیٹوں سے ملنے والے خون کا ڈی این اے سمیعہ اور خنسا کے ساتھ میچ کر چکا ہے اور اس کیس میں انتہائی اہم ثبوت ہے۔

ان کے مطابق ’سی ڈی آر کے تجزیے سے ملزم کو شک نہیں پڑا تھا۔ جس وقت ہم نے اِس کی گاڑی کا فارینزِک کیا تو انھیں شک ہو گیا اب اِس میں سے شواہد نکل آئیں گے۔ یہ دیکھتے ہوئے ملزم نے اپنی حفاظتی ضمانت کروائی اور شاملِ تفتیش ہو گئے لیکن یہ سارے ثبوت ہمارے پاس موجود تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر پولیس کی کوشش تھی کہ خواتین کو زندہ یا مردہ برآمد کیا جائے، یہ عمل اب چونکہ مکمل ہو چکا ہے، اس لیے اب ثانوی شواہد بشمول آلہ قتل وغیرہ کی برآمدگی پر کام کیا جا رہا ہے۔

تصویر
Getty Images
لاہور پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم اپنی سرکاری گاڑی پر اپنی اہلیہ اور بیٹی کو ہوٹل میں کھانا کھلانے لے گئے اور واپسی کے راستے میں ان کا قتل کیا گیا

’لاشوں کی نشاندہی‘

پولیس افسر کا دعویٰ ہے کہ ان ثبوتوں کے حصول کے بعد ملزم ڈی ایس پی عثمان حیدر سے تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا اور انھیں کہا گیا کہ اب ان کے پاس خود کو قانون کے حوالے کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

’دیکھیں وہ ایک پولیس افسر ہیں اور تفتیش کی مُوشگافیوں سے آشنا ہیں۔ انھیں پتا چل گیا تھا کہ اب پولیس اُس ثبوت تک پہنچ گئی ہے جس کی بنیاد پر چالان کے لیے ہمارا کیس تیار تھا۔ گاڑی سے بڑی مقدار میں خون ملا تھا۔ یہ چیز میں نے اُن کے سامنے رکھی، تو پھر اُن کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا سو اُنھوں نے اس بارے میں اِنکشافات کرنا شروع کیے۔‘

ایاز حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت تک رات ہو چکی تھی۔

ایاز حسین نے دعویٰ کیا کہ ’ہفتے کی رات تھی اور وقت تھا کوئی دو بجے کا۔ ہم پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اِس (عثمان حیدر) نے کہا کہ ہم شیخوپورہ کی طرف چلتے ہیں۔ میں خود اپنی ٹیم لے کر اور ملزم کو ساتھ لے کر نکلا۔۔۔ کافی دُھند تھی رات کو۔ میں نے تین بجے موٹروے کُھلوائی (جو کہ دھند کی وجہ سے بند تھی) کیونکہ یہ ایک بہت ہی سنگین نوعیت کا معاملہ تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’موٹر وے پر کالا شاہ کاکو انٹرچینج ہے اور فیروز والا تھانہ ہے۔ وہاں بھرٹ سٹاپ ایک جگہ ہے تو وہاں پر، موٹروے کے کنارے جا کر، اُس نے نشاندہی کی کہ میں نے اپنی بیوی کی لاش یہاں پھینکی تھی۔ میں نے ایس ایچ او فیروز والا کو طلب کیا اور ساتھ ہی روزنامچے کی انٹری منگوائی۔ لاوارث لاشوں کی جو کارروائی ہوتی ہے اِس کو سی آر پی سی میں 174 کی کارروائی کہتے ہیں جس کی باقاعدہ مثل تیار ہوتی ہے۔ میں نے پچھلے تین ماہ کے تمام کیس منگوا لیے۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن کا کہنا تھا کہ ’جب ایس ایچ او آیا تو معلوم ہوا کہ تھانہ فیروزوالا میں پانچ اکتوبر 2025 کے روزنامچے میں نامعلوم مسخ شدہ لاش کی انٹری تھی۔ یہ لکھا ہوا تھا کہ نامعلوم لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا جا رہا ہے اور 174 کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اُس رات پولیس نے اس نامعلوم لاش کی تصویریں بھی لی تھیں، وہ بھی ہم نے اُن سے لے لیں۔ لاش بالکل ڈھانچہ تھی۔ ڈی کمپوزیشن کی ایڈوانسڈ سٹیج تھی۔ پانچ اکتوبر کو پولیس کو وہ لاش ملی تھی اور وقوعہ جو ہماری سی ڈی آر میں آ رہا تھا وہ 25 ستمبر کی رات کا تھا تو دس دنوں میں اگر کھلے آسمان تلے کوئی لاش ہو اور وہ بھی جھاڑیوں میں پڑی ہو تو وہ مَسخ ہو جاتی ہے۔‘

ایاز حسین کے مطابق اس کے بعد شیخوپورہ کی حدود میں ہی اس قبر کی نشاندہی بھی کر لی گئی جہاں پولیس کی جانب سے نامعلوم لاش کو لاوارث قرار دے کر امانتاً دفن کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق لاش کی عمر اور ہیت کا تعین جو مقامی پولیس نے کیا تھا وہ سمیعہ سے ملتا جلتا ہے۔

پولیس افسر کے مطابق اس نشاندہی کے بعد ملزم سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر یہ قافلہ قصور کی جانب چل پڑا۔

’پھر ہم نے گاڑی موڑی۔ تھانہ کاہنہ میں علاقہ ہے کوٹ میلا رام اور یہاں ضلع لاہور اور ضلع قصور کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں پر ایک نالہ تھا تو اِس نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کی لاش یہاں پھینکی تھی۔ وہاں پر جب ایس ایچ او کاہنہ بلایا اور پھر وہی سارا عمل کیا تو 27 ستمبر 2025 کی ایک رَپٹ لکھی ہوئی تھی، جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ 20-25 سال عمر کی ایک لاوارث لاش ملی ہے۔ پھر وہی خراب حالت والی لاش۔‘

'جو چال ملزم نے چلی تھی کہ میں ایک لاش ایک ضلع میں اور دوسری دوسرے ضلع میں پھینک دوں گا اور لاہور پولیس اُس کا پتا نہیں لگا پائے گی، تو اللہ کا شکر ہے اُس چال کو ہم نے ناکام بنایا۔‘

ایس پی انویسٹیگیشن ایاز حسین
BBC
ایس پی انویسٹیگیشن ایاز حسین کا دعویٰ ہے کہ تفتیش میں انتہائی اہم موڑ اُس وقت آیا جب ڈی ایس پی کی گاڑی کا فارینزک کیا گیا

’اُس نے اپنی طرف سے تو اُس کو قصور کی حدود میں ڈالا تھا۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں یہ خود بطور ڈی ایس پی انویسٹیگیشن تعینات تھا۔ یہ ایک پولیس افسر تھا اور یہ تفتیش کی مُوشگافیوں کو جانتا تھا، تو اِس نے اپنے جرم کو چھپانے کی سب سے بہترین چال یہ چلی کہ میں ایک لاش قصور میں پھینکوں گا تو قصور کی پولیس اُسے ڈھونڈتی رہے گی لیکن اسے اس کی بدقسمتی اور ہماری خوش قسمتی کہا جائے کہ لاش لاہور کے تھانہ کاہنہ کی حدود میں ہی تھی۔‘

ایاز حسین کا کہنا ہے کہ ملزم کی اہلیہ اور بیٹی کی لاشیں اگرچہ ناقابلِ شناخت تھیں لیکن ان کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا تھا اور حتمی رپورٹس کا انتظار ہے جس میں موت کی حتمی وجہ سامنے آ جائے گی۔

پیر کے روز ڈی آئی جی انویسٹیگیشن سید ذیشان رضا نے اس کیس کے حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم عثمان حیدر اپنی سرکاری گاڑی پر اپنی اہلیہ اور بیٹی کو نجی ہوٹل میں کھانا کھلانے لے گئے اور واپسی کے راستے میں ایئرپورٹ کے قریب واقع رنگ روڈ پر انھوں نے سرکاری گاڑی میں فائرنگ کر کے دونوں کو قتل کر دیا۔

سید ذیشان رضا نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر یہ اقدام اٹھایا اور اس کے بعد اپنی اہلیہ کی لاش کو کالا شاہ کاکو کے قریب کھائی میں پھینک دیا جبکہ بیٹی کی لاش کو کاہنہ کے علاقہ میں گندے نالے میں پھینک دیا۔

منگل کے روز جاری ہونے والے لاہور پولیس کے ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ڈی ایس پی عثمان حیدر کو نوکری سے معطل کر دیا گیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US