امریکا میں گزشتہ روز ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہلِ میں واقع پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا، تاہم ہنگامہ آرائی اس قدر شدت اختیار کر گئی تھی کہ ایک خاتون سمیت 4 افراد ان ہنگاموں میں جان سے گئے، ٹرمپ کے حامیوں نے ایک ایسے وقت میں ہنگامہ آرائی کی کہ جب وہاں کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جاری تھا۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر بھی کیپیٹل ہل پر حملے کی تصاویر بڑی تعداد میں زیرِ گردش ہیں اور ان پر بھرپور تبصرے کئے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں اس قسم کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار امریکا کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پارلیمنٹ پر حملے کا پہلا واقعہ 1814 میں پیش آیا، جب برطانوی فوجیوں کی جانب سے حملے میں پارلمنٹ کے ساتھ امریکی سپریم کورٹ کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔
جولائی 1915 میں ہارورڈ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر نے خود کو سینیٹ کے چیمبر میں لاک کر کے بم دھماکے کیے تھے تاہم اس واقع میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
مارچ 1954 میں ''پورٹو ریکن'' قوم پرستوں نے کیپیٹل ہل کی بلڈنگ پر اس وقت حملہ کیا تھا جب امریکا کے ایوان میں نمائندگان میکسیکو کے مہاجروں کے حوالے سے ایک بل پر بحث کر رہے تھے۔
مارچ 1971 میں ویتنام کی جنگ کی مخالفت کرنے والے سینیٹ چیمبر کے ایک واش روم میں مشکوک دھماکا ہوا تھا جس کی ذمہ داری بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے قبول بھی کی تھی۔
کیپیٹل ہل پر پانچواں حملہ نومبر 1983 میں ہوا اس واقع میں سینیٹ کے باہر بم دھماکہ ہوا جس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تاہم عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔
جس کے بعد 1998 میں ایک اور واقعہ پیش آیا جس میں مسلح افراد نے کیپٹل ہل کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں دو سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔
تاہم کیپیٹل ہل پر آخری بار حملہ 4 سال قبل یعنی 2016 میں ہوا تھا، مارچ 2016 میں ایک شخص نے کیپیٹل ہل کے وزیٹر سینٹر میں داخلے کے وقت پولیس آفسر پر ایک چھوٹی گن تان لی جس پر پولیس نے اسے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز ہنگامہ آرائی کا واقعہ پیش آیا جس میں کیپییٹل ہل کو شدید نقصان پہنچا ساتھ ہی ایک خاتون سمیت چار افراد ہلاک اس حملے میں ہلاک بھی ہوئے۔