معروف ایپ ٹک ٹاک پر پابندی لگوانے کیلئے والدین عدالت پہنچ گئے

image

صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی والدین ٹک ٹاک سے بےحد پریشان ہیں یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک کے والدین کی ایک فاؤنڈیشن جس کا نام مارکیٹ انفارمیشن ریسرچ سینٹر (ایس او ایم آئی) ہے اور اس فاؤنڈیشن میں تقریباََ 64 ہزار والدین شامل ہیں اور ایس او ایم آئی فاؤنڈیشن نے ایمسٹرڈم کی عدالت سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا بڑا مطالبہ کر دیا ہے کیونکہ والدین کی جانب سے عدالت میں اپنی دائر کردہ درخواست میں یہ مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ٹک ٹاک بچوں کا ڈیٹا بغیر اجازت جمع کر رہا ہے۔

عدالت میں سماعت کے موقع پر ایس او ایم ائی فاؤنڈیشن کے وکیل ڈوو لینڈرز نے بھی یہی مؤقف اپنایا کہ ٹک ٹاک ضرورت سے زیادہ بچوں کا ڈیٹا جمع کر رہا ہے جبکہ کئی مرتبہ تو دنیا بھر کے ٹک ٹاکرز کو جان لیوا چیلنجز بھی دیے جاتے ہیں جنہیں پورا کرنے میں اکثر بچوں کی جان چلی جاتی ہے جیساکہ "بلیک آؤٹ چیلنج اس چیلنج میں بچوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سانس روکیں اور تب تک روکے رکھیں جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جا ئیں، تو ایسی صورت میں اگر بچے نہ بھی مریں تو انکی زہنی اور جسمانی صحت پر بہت برا اثر پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ ادارے کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ یورپی قوانین کیخلاف ہے۔

مشہور و معروف ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر ایس او ایم آئی فاؤنڈیشن نے 1 عشاریہ 4 ارب یوروز ہر جانے کے طور پر اداکرنے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ ہرجانہ کی مختلف عمر کے بچوں کو ٹک ٹاک سے پہنچنے والے نقصان کی مد میں کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ٹک ٹاک حکام کا کہنا ہے کہ نو عمر افراد کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں اور ماڈریٹرزنامناسب وڈیوز کو ہمیشہ سے ہی مستقل طور پر آف لائن کر دیتے ہیں، ان ویڈیوز کو بنانے والے کا اکاؤنٹ بند کر دیا جاتا ہے اور جس صارف کو بھی کسی بھی قسم کی ویڈیو نامناسب لگے وہ اسے رپورٹ بھی کر سکتا ہے اور اس رپورٹ کرنے سے ادارہ آگاہ ہو جاتا ہے اور فوراََ اس ویڈیو کی ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔


About the Author:

Faiq is a versatile content writer who specializes in writing about current affairs, showbiz, and sports. He holds a degree in Mass Communication from the Urdu Federal University and has several years of experience writing.

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts