ایرانی صدر مسعود پژشکیان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے انھیں ایک اجلاس کے دوران ’قتل‘ کرنے کی کوشش کی تھی۔

ایرانی صدر مسعود پژشکیان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے انھیں ایک اجلاس کے دوران ’قتل‘ کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایک انٹرویو کے دوران امریکی اینکر پرسن ٹکر کارلسن نے مسعود پژشکیان سے پوچھا کہ ’کیا اسرائیلی حکومت نے ایرانی صدر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی؟‘
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ’جی، انھوں نے کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔‘
ٹکر کارلسن نے انھیں کہا کہ ’انھوں (اسرائیلیوں) نے اس بات کی کہیں تصدیق نہیں کی ہے، کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے؟‘
ایرانی صدر نے جواب دیا کہ اسرائیل نے انھیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور اس میں امریکہ ملوث نہیں تھا۔
مسعود پژشکیان نے قتل کرنے کی مبینہ اسرائیلی کوشش کے وقت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ہم ایک اجلاس میں تھے اور آئندہ کیا کرنا ہے اس پر بات چیت کر رہے تھے۔‘
ایرانی صدر نے مزید تفصیلات دیے بغیر کہا کہ اسرائیل نے ’اپنے جاسوسوں کی فراہم کردہ معلومات پر اس جگہ پر بمباری کی تھی۔ لیکن جب تک خدا نہیں چاہتا تب تک کچھ نہیں ہوتا۔‘
’میں اپنی سرزمین اور آزادی کے دفاع میں مرنے سے نہیں ڈرتا، لیکن کیا اس سے استحکام آ جائے گا؟‘
خیال رہے اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسروں کی سرزمین پر حملے کیے تھے جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔
اس تنازع کے نویں روز امریکہ نے بھی ایران کے تین جوہری مقامات پر حملے کیا تھا۔ ایران نے 23 جون کو قطر میں امریکہ فضائی اڈے پر حملہ کیا تھا اور 24 جون کو اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہو گیا تھا۔
اسرائیلی حملوں میں ایران کی مسلح افواج اور پاسدارانِ انقلاب کے متعدد حکام کی ہلاکتوں کی تصدیق ایران خود کرچکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے تاحال ایرانی صدر کو قتل کرنے کی کوششوں کے الزامات پر تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم امریکی صدر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انھوں نے اس تنازع کے دوران ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو موت سے بچایا تھا۔
اس سے قبل ایران کی ایک اور حکومت شخصیت علی لاریجانی بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے سپریم نیشنل سکیورٹی کورنسل کے اجلاس کا مقام ’معلوم‘ کر لیا تھا اور ایرانی ’رہنماؤں پر بمباری کرنا چاہتا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔‘
’ہم جنگ جاری نہیں رکھنا چاہتے‘
انٹرویو کے دوران ٹکر کارلسن نے ایرانی صدر سے پوچھا کہ ’امریکہ کے ساتھ جنگ میں ابھی وقفہ آیا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ معاملہ کیسے حل ہوگا اور آپ اس کا کیسا اختتام چاہتے ہیں؟‘
مسعود پژشکیان نے جواب دیا کہ ایران نے یہ جنگ شروع نہیں کی تھی اور ’ہم اس جنگ کو جاری نہیں رکھنا چاہتے۔‘
’ہماری حکومت کی ابتدا سے ہی ہمیشہ ہمارا مقصد خطے کے ممالک میں امن برقرار رکھنا رہا ہے۔‘
ایرانی صدر سے پوچھا گیا کہ انھوں نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ تعاون ختم کر دیا ہے اور اسی صورت میں دیگر ممالک کو کیسے معلوم ہوگا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا؟
ایرانی صدر مسعود پژشکیان نے جواب دیا کہ ان کا ملک اس معاملے پر مذاکرات کر رہا تھا اور اس دوران ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کرے گا، لیکن پھر اسرائیل نے مذاکرات کی میز پر بم گِرا دیا۔‘

ایرانی صدر نے انٹرویو کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم پرالزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ: ’بنیامین نتن یاہو اس سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن ایران نے کبھی ایسا نہیں چاہا اور ہم اس نقطے کی تصدیق کرنے والے تھے لیکن اس عمل کو نقصان پہنچایا گیا۔‘
کیا ایران امریکی صدر کے قتل کا حامی ہے؟
ٹکر کارلسن نے مسعود پژشکیان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری ہونے والے فتوے کے حوالے سے بھی سوال کیا۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے ایران میں کسی بھی مذہبی شخصیت نے ایسا فتویٰ جاری نہیں کیا ہے اور ان کی حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ مذہبی شخصیات مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کی مذمت کرتی ہیں اور ان کے فتوات کا امریکہ یا امریکی صدر سے کوئی تعلق نہیں۔
مسعود پژشکیان کے مطابق ان مذہنی شخصیات کے اپنے خیالات ہیں اور ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فتوے کسی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘
اس کے بعد میزبان نے ان سے سوال کیا کہ کیا ایران نے کبھی بھی کسی امریکی صدر کے قتل کی حمایت کی ہے؟
ایرانی صدر نے اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کہا کہ: ’نتن یاہو یہ خیال امریکی عوام کے ذہنوں میں بٹھانا چاہتے ہین تاکہ امریکہ کو اس خطے میں گھسیٹا جا سکے اور بدامنی پھیلائی جا سکے۔‘
اس انٹرویو کے دوران ایرانی صدر نے امریکہ کے ساتھ سفارتی رابطوں اور ملک پر عائد پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکی سرمایہ کار ایران میں سرمایہ کاری کرنے آ سکتے ہیں او ایران میں امریکی سرمایہ کاروں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘
’میرا ماننا ہے کہ یا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں سکون لے آئیں گے اور اسرائیل کو اس کی جگہ پر لے آئیں گے یا پھر وہ نتن یاہو کے جال اور ان کی شیطان خواہشات میں پھنس کر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کرلیں گے۔‘
جب ایرانی صدر سے پوچھا گیا کہ کسی بڑی جنگ شروع ہونے پر کیا روس اور چین سمیت ان کے اتحادی ایران کی مدد کریں گے تو انھوں نے کہا کہ وہ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ’ایران اپنے دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم اپنے ملک کے لوگوں اور عزت کے لیے کھڑے رہیں گے۔‘
ٹکر کارلسن کون ہیں؟
ٹکر کارلسن وہ پہلے مغربی صحافی تھے جنھوں نے فروری2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن کا انٹرویو کیا تھا۔ اسرائیل اور امریکی حملے کے بعد ایرانی صدر کے انٹرویو نے ایک بار پھر انھیں دنیا بھر میں شہرت دلائی ہے۔
1969 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پیدا ہونے والے ٹکر کارلسن نے 1991 میں تاریخ میں ڈگری حاصل کی تھی جس کے بعد انھوں نے مختلف صحافتی اداروں میں کام کیا۔
سنہ دو ہزار میں وہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این میں ایک تجزیہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے جس کے بعد انھوں نے ایم ایس این بی سی میں اپنا پروگرام شروع کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب کارلسن نے قدامت پسندانہ نظریات اپنائے اور خصوصی طور پر تارکین وطن کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی امریکہ آمد کو ایک ’حملے‘ کے طور پر پیش کیا۔ یوں وہ ریپبلکن جماعت کی آواز بنتے گئے۔
2010 میں کارلسن نے کنزرویٹیو نیوز ویب سائٹ ’دی ڈیلی کالر‘ کی بنیاد رکھی اور 2016 میں انھوں نے ٹرمپ کی پہلی صدارت کے فوری بعد اپنے نام سے ’ٹکر کارلسن ٹونائٹ‘ پروگرام کا آغاز کیا۔
جلد ہی وہ فاکس نیوز کا چہرہ بن گئے اور انھوں نے ٹرمپ کی صدارت کے دوران اپنے نظریات کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کی۔ اس دوران انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا اور ان پر نسل پرستانہ نظریات کا پرچار کرنے کا الزام بھی لگا جس میں ایک سازشی نظریہ یہ بھی شامل ہے کہ غیر ملکی افراد مغربی ممالک میں آبادی کا تناسب بدلنے کی منظم کوشش کر رہے ہیں۔
ایک پروگرام میں انھوں نے کینیڈا پر امریکی حملے کی حمایت بھی کی۔ ایک اور پروگرام میں ٹکر کارلسن نے کہا کہ امریکی مردوں میں ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کا علاج کرنے کے لیے انھیں لال رنگ کی روشنی میں نہانا چاہیے۔ تاہم وہ روسی صدر کا دفاع بھی کرتے دکھائی دیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارت نے ٹکر کارلسن کو ایک بار پھر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ لیکن اپریل 2023 میں فاکس نیوز کے ساتھ ان کا وقت اچانک ختم ہوا جب انھیں فارغ کر دیا گیا۔
فاکس نیوز نے اس فیصلے کی وجہ نہیں بتائی لیکن اس سے چند ہی دن قبل الیکشن سے متعلق دعووں کے ایک مقدمے میں فاکس نیوز نے تقریبا آٹھ سو ملین کی رقم ادا کی تھی۔
چند ہفتوں کی خاموشی کے بعد کارلسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک نیا شو شروع کرنے کا اعلان کیا۔ وہ فروری2022 میں روسی صدر پوتن کا انٹرویو کرنے میں کامیاب رہے جس میں روسی صدر نے یہ مذاق بھی کیا کہ کارلسن نے سی آئی اے میں شامل ہونے کی ناکام کوشش کی تھی۔
پوتن نے کہا تھا کہ ’جس تنظیم میں آپ شامل ہونا چاہتے تھے، شاید ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ انھوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔‘
جون میں ایران پر امریکی حملے سے قبل کارلسن نے امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز کا انٹرویو کیا اور اس میں سوال اٹھایا کہ امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں شامل کیوں ہو؟ اس پروگرام میں ایک موقع پر کارلسن نے امریکی سینیٹر سے ایران کی آبادی کے بارے میں سوال کیا تو ٹیڈ کروز نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے۔
کارلسن نے کہا کہ ’آپ اس ملک کی آبادی کے بارے میں نہیں جانتے جس کی حکومت بدلنا چاہتے ہیں؟‘
ٹکر کارلسن کے مطابق وہ اسرائیلی وزیر اعظم کا انٹرویو حاصل کرنے کی کوشش بھی کر چکے ہیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔