کیا شوگر کے مریض میٹھے آم کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ جانیں ڈاکٹر کی بتائی گئی اہم معلومات جو بہت سے لوگ نہیں جانتے

image

آم ایک ایسا پھل ہے جس کو کھائے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ اس کا ذائقہ اتنا میٹھا ہوتا ہے کہ کھانے والا اس کی لذت میں گم ہوجاتا ہے۔ ٹھیلوں پر رکھے آموں کی خوشبو ہی آپ کو انہیں خریدنے ہر مجبور کر دیتی ہے۔ یہی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آم کو تمام پھلوں کو بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ کیا ذیابطیس کے مریض رسدار آموں کے ذائقے سے مستفید ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ آج ہم اسی حوالے سے جانیں گے۔

طبی ماہرین کے مطابق شوگر کے مریضوں کو اپنے خون کا گلوکوز لیول قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ بات ضروری ہے کہ ان کی غذا بھی ایسی ہو جو بلڈ لیول کو کنٹرول رکھ سکے۔ تو ایسے مریضوں کے لیے 15 گرام کاربوہائیڈریٹ کسی پھل کے ذریعے جسم کا حصہ بننا نقصان دہ نہیں، آسان الفاظ میں ذیابیطس کے شکار افراد آم کھاسکتے ہیں مگر محدود مقدار میں۔

اب یہاں ضرور آپ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ آم کا استعمال کتنی مقدار میں کر سکتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق آم کا ایک ٹکڑا یا کٹے ہوئے آم کا آدھا چھوٹا کپ کھایا جاسکتا ہے، مگر آم کا شیک، جوس وغیرہ نہیں پینا چاہیئے۔

پھلوں کا بادشاہ آم انسانی صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہے کیونکہ یہ غذائی نالی کے افعال کو متحرک رکھتا ہے، جبکہ فائبر سے بھرپور ہونے کے باعث بھی نظام ہاضمہ کے لیے فائدہ مند ہے، اس کے ذریعے وٹامن سی جسم کو فراہم ہوتا ہے جو کہ جسمانی دفاعی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

آم میں موجود بیٹا کیروٹین آنکھوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے اور اس سے ہٹ کر بھی آم کھانا کئی فوائد پہنچاتا ہے۔

اس کے علاوہ ماہرین کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ زیادہ پکے ہوئے آم میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے، کچے آم ذیابیطس کے مریضوں کے لیے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔


About the Author:

Zain Basit is a skilled content writer with a passion for politics, technology, and entertainment. He has a degree in Mass Communication and has been writing engaging content for Hamariweb for over 3 years.

سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts