’دو پودوں کی خصوصیات ایک پودے میں‘: وہ تکنیک جس سے لاکھوں روپے کمائے جا سکتے ہیں

انڈیا میں ریاست پنجاب کے ضلع روپڑ کے رہائشی راجیو بھاسکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے شمالی انڈیا کی پہلی ’گرافٹنگ نرسری‘ قائم کی۔

عام طور پردیکھا جاتا ہے کہ نوجوان اکثر اپنے خواب پورے کرنے کے لیے پردیس کا رخ کرتے ہیں لیکن ایک نوجوان ایسا بھی ہے جس نے اپنی ہی سرزمین کو اپنا خواب پورا کرنے کا مرکز بنا لیا۔

انڈین پنجاب کے ضلع روپڑ میں سیجووال گاؤں کے راجیو بھاسکر ایسے ہی ایک نوجوان ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے شمالی انڈیا کی پہلی ’گرافٹنگ نرسری‘ قائم کی ہے۔

گرافٹنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے دو پودوں کی خصوصیات کو جوڑ کر ایک پودے کو اُگایا جاتا ہے۔

وہ پارٹنرشپ ماڈل پر نرسری چلا رہے ہیں۔ راجیو کا کہنا ہے کہ انھوں نے تقریبا 25 ایکڑ زمین پر امرود کے باغات لگائے ہیں اور اس کے ساتھ وہ سات ایکڑ زمین پرسبزیاں کاشت کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ ڈاکٹر بی کے شرما کے 25 ایکڑ پر پھیلے باغ میں کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں اور ڈاکٹر بی کے شرما ان کے پارٹنر بھی ہیں۔

جالندھر میں پیدا ہونے والے راجیو بھاسکر نے اتراکھنڈ سے بی ایس سی ایگریکلچر (ذراعت) کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے رائے پور (ریاست چھتیس گڑھ) کی ایک نرسری میں ساڑھے چار سال کام کیا۔

اب جب سے انھوں نے اپنا کام شروع کیا ہے تو وہ ہر روز صبح 6 بجے اپنے باغوں میں ہوتے ہیں۔ دوپہر کو تین گھنٹے آرام کرتے ہیں اور پھر سارا دن اپنے باغوں اور کھیتوں میں ہوتے ہیں۔

راجیو کہتے ہیں کہ ’مجھے کسانوں سے ملنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے مختلف قسم کی مٹی اور ماحول کے مطابق کھیتی باڑی سیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے 2017 میں اپنی ملازمت چھوڑ کر کاشت کاری کی طرف رخ کیا تھا۔‘

گرافٹنگ کیا ہے اور انھیں اس نرسری کا خیال کیسے آیا؟

گرافٹنگ یعنی قلم کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے راجیو نے کہا کہ یہ ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے دو پودوں کی خصوصیات کو جوڑ کر ایک پودا بنایا جاتا ہے، جیسے کہ بینگن کی جڑ کو ٹماٹر کے تنے سے جوڑ دیا جائے یا ان کی پیوند کاری کر دی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک پیوند کاری یا قلمی پودا بنانے کے لیے ہم ایک روٹ سٹاک (جڑوں) اور ایک تنے کو جوڑ دیتے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی وقت میں لگائے جاتے ہیں اور جب دونوں کسی قلم یا پینسل جتنے موٹے ہو جاتے ہیں، تو ہم انھیں سلیکون کلپ کے ذریعے جوڑ دیتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’پیوند کاری کے بعد ہم اسے پلانٹ آئی سی یو میں سات دن کے لیے ٹھوس ہونے کے لیے رکھتے ہیں، جہاں بہت اچھی طرح سے جوڑے گئے پودوں کو رکھا جاتا ہے اور پھر ہم کسانوں کو ایسے پودے فراہم کرتے ہیں جو ہماری نرسری میں پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘

راجیو بھاسکر کا کہنا ہے کہ ’اس طریقۂ کار سے پودا بیماریوں کا کم شکار ہوتا ہے، جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوتا ہے۔‘

یہ طریقہ پنجاب اور ہماچل جیسے خطوں میں بہت مفید ثابت ہو رہا ہے، جہاں مٹی سے پیدا ہونے والی بیماریاں عام ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ مستقبل میں اس کی مارکیٹنگ کا کام بڑھے گا اور اسی لیے انھوں نے سنہ 2022 میں اس کی نرسری شروع کی تھی لیکن وہ 2018 سے اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔

تجربے کے لیے سب سے پہلے انھوں نے چھتیس گڑھ سے پیوند شدہ بیج منگوائے اور انھیں اپنے کھیتوں میں آزمایا۔

راجیو بتاتے ہیں کہ ’اب تک ہم سبزیوں کی نرسریوں پر کام کر رہے ہیں اور کسانوں کو گرافٹڈ پودے فراہم کر رہے ہیں۔ مستقبل میں ہمارا منصوبہ پھلوں میں پیوند والے پودے تیار کرنا ہے۔‘

راجیو کا دعویٰ ہے کہ ہر سال ان کے پودوں کی مانگ میں چار گنا اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور کسان ایک دوسرے کی بات سن کر آتے ہیں۔

50,000 پودوں سے شروع ہونے والی نرسری میں اب 10 لاکھ سے زیادہ پیوند شدہ پودے تیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ اس تعداد کو 40 سے 50 لاکھ تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فی الحال وہ ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ اور جموں یہ قلمی پودے فراہم کر رہے ہیں۔

کون سی نئی ٹیکنالوجیز استعمال کی جا رہی ہیں؟

اپنے کھیتوں میں راجیو ڈرپ ایریگیشن، ملچنگ اور سٹاکنگ جیسی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ڈرپ ایریگیشن میں پانی اور کھاد کو کنٹرول میں رکھ کر فراہم کیا جاتا ہے۔ ملچنگ شیٹس پودوں کے قریب گھاس کو اگنے سے روکتی ہیں، جس سے محنت کی بچت ہوتی ہے۔ سٹاکنگ پھلوں کو زمین سے رابطہ کرنے سے روکتی ہے، جس سے پیداوار اور معیار دونوں میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

راجیو کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک باغ کو لیز پر لے کر اپنے کام کی شروعات کی تھی اور پہلے ہی سیزن میں انھیں 24-25 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر پہلا ٹرائل ناکام ہو جاتا تو میں شاید پھر سے نوکری کرنے لگتا۔‘

راجیو کہتے ہیں کہ شروع میں مالی مسائل ایک چیلنج تھا۔ ’پہلے میں نے اپنی ساری کمائی اس میں لگا دی۔ بعد میں، میں نے سیکھا کہ ایک بڑا حصہ دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے رکھا جانا چاہیے تھا۔‘

راجیو کا کہنا ہے کہ یہ اب تک کا ان کا بہترین فیصلہ تھا۔ ’میں نے اتار چڑھاؤ دونوں دیکھے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اس کام میں زیادہ آزادی اور سکون ہے۔‘

راجیو کے فارم پر تھائی امرود (امرود) بڑے پیمانے پر اگایا جا رہا ہے۔ انھیں ایک ایکڑ سے 9 لاکھ روپے کی سالانہ آمدن ہوتی ہے جو لگنے والی لاگت کا تقریباً دوگنا ہے۔

اس کے علاوہ راجیو کا کہنا ہے کہ تین لوگ ہر وقت ان کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید افراد کو باہر سے بلایا جاتا ہے۔

راجیو کا کہنا ہے کہ ایک ایکڑ میں پیوند شدہ پودوں کی قیمت لگ بھگ 70,000-72,000 روپے آتی ہے جبکہ عام پودوں کی قیمت ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ گرافٹنگ سے پیداوار میں 10-15 فیصد اضافہ ہوتا ہے جس سے کسان کو ایک لاکھ سے زیادہ کا منافع ہوتا ہے۔

حکومت سے مطالبہ اور نوجوانوں کو پیغام

راجیو کا ماننا ہے کہ چھوٹے کسانوں کے لیے دہلی یا بڑے بازاروں تک پہنچنا مشکل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت کو گاؤں کی سطح پر کچھ کلیکشن سینٹرز قائم کرنے چاہییں۔ چھوٹے کاشتکار مقامی منڈیوں پر انحصار کرتے ہیں اور وہ وہاں بھی بہت کمزور ہیں۔ اس لیے حکومت کو ان کی مدد کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔‘

نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے راجیو کہتے ہیں کہ ’باہر (بیرون ملک) محنت کرنے کے بجائے اپنی زمین پر کام کرو۔ اگر میں باہر سے آکر یہاں کھیتی باڑی کرسکتا ہوں تو وہ لوگ کیوں نہیں کرسکتے جن کی اپنی زمین ہے؟‘

وہ نوجوانوں کو کھیتی باڑی سے پہلے تجربہ حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ’مختلف ریاستوں، یہاں تک کہ دوسرے ممالک میں بھی جائیں اور دیکھیں کہ وہاں کس طرح کاشتکاری کی جاتی ہے۔ یہ آپ کی سوچ کو نئی شکل دے گی۔‘

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ریاست پنجاب میں ایگریکلچر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر وجے پرتاپ کا کہنا ہے کہ روپ نگر میں ڈاکٹر بی کے شرما کے ذریعہ ایک نئی رجسٹرڈ پرائیویٹ ہائبرڈ نرسری قائم کی جارہی ہے۔

اس تکنیک کے ذریعے اگائے جانے والے پودوں کو بہت کم بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے پانی کی بھی کافی بچت ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بی کے شرما نے ان کے محکمے میں ایک درخواست دی ہے جس پر ہمیں جا کر تحقیقات کرنی ہیں اور منظوری ملنے کے بعد یہ ریاست پنجاب کی پہلی رجسٹرڈ نرسری ہوگی۔ اس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوگا۔‘

وجے پرتاپ نے کہا کہ یہ نرسری مٹی کے بغیر دوسرے وسائل پر مبنی ہو گی جس کے ذریعے اعلیٰ معیار کے، بیماری سے پاک پودے تیار کیے جائیں گے۔

’ڈاکٹر شرما اپنے فارم پر پولی ہاؤسز میں ڈریگن فروٹ، امرود، بغیر بیج والی ککڑی وغیرہ اگا رہے ہیں، جہاں ڈرپ ایریگیشن‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی بچت بھی کی جا رہی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts