میں ہندو ہوں لیکن قرآن لکھتا ہوں کیونکہ ۔۔ یہ ہندو شخص کون ہے جو مساجد میں کلمہ و قرآنی آیات لکھتا ہے، جانیں اس کی کہانی

image

خدا کی محبت ہر شخص کے دل میں ہوتی ہے، چاہے کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی دین ہو، ہندو ہو یا مسلمان سب کو اپنے پیدا کرنے والے خالق کی ذات پر یقین بھی ہوتا ہے اور عقیدہ بھی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عقل مند لوگ ہمیشہ ہر کسی کے مذہب کی عزت و احترام کرتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے اصول و ضوابط اور عقائد کی پیروی کرنا نہیں چھوڑتے ہیں۔

بالکل ایسے ہی ایک شخص کی کہانی ہماری ویب میں بتائی جا رہی ہے جوکہ ہم نے بی بی سی اردو سے آپ لوگوں کے لئے اخذ کی ہے تاکہ آپ بھی پیار محبتیں بانٹیں اور شوق کو پورا کرنے کے لئے کوشش ضرور کریں۔

حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے انیل کمار چوہان جو خود مذہب کے اعتبار سے ایک ہندو ہیں، مگر انہوں نے 17 سال کی عمر سے ہی خطاطی کرنا شروع کردی تھی ، ساتھ ہی محافل و میلاد میں بھی جاتے تھے جہاں سے ان کو نعتیں پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے کئی کلام یاد بھی کیئے ہوئے ہیں۔

انیل بتاتے ہیں کہ: '' میرے گھر والوں کو بھی اس بات سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہم ہندو ہیں مگر کام مسجدوں میں جا جا کر لکھتے ہیں، محافلوں کا دورہ کرتے اور نعتیں پڑھتے ہیں۔ میرے خاندان میں سب سے پہلا خطاط آرٹسٹ میں ہی ہوں، لیکن میرے والد اور ماموں پینٹنگ یا مصوری بنایا کرتے تھے، والد نواب دکن میر عثمان علی خان اور ان جیسے کئی شاہی خاندان کے لوگوں اور کئی بڑے رہنماؤں کی تصاویر خود ہاتھ سے بنایا کرتے تھے۔''

انیل نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ: '' میں حیدرآباد میں دکانوں کے نام وغیرہ لکھنے کا کام کرتا تھا، جہاں کہیں کچھ لکھا ہوا دیکھتا تھا، اس کو ویسے ہی لکھنے کی کوشش کرتا، یوں میری اردو زبان سے واقفیت بھی ہوگئی اور پھر مجھے اردو کے سادہ اور سلیس الفاظ بھی سمجھ آنے لگے جس کے بعد میں نے بہت محنت سے فنِ خطاطی میں ڈپلومہ کرنے کے لئے حیدرآباد کے فائن آرٹس کالج میں داخلہ لیا، مگر مالی و ذاتی مسائل کے تحت مکمل نہ کرسکا۔ ''

میں نے شروع ہی سے کلمہ اور قرآنی آیات لکھنا شروع کردی تھیں اور بسم اللہ وغیرہ بھی لکھ دیا کرتا تھا، لیکن اس کام کا کبھی بھی معاوضہ نہیں لیا کرتا تھا، اب میں ہزاروں مساجدوں میں اپنی خطاطی کا فن دکھا چکا ہوں، اب میں اپنے مناسب کام کے صرف اتنے ہی پیسے لیتا ہوں جتنا خرچہ بنتا ہے کیونکہ پہلے کے مقابلے اب چیزوں کے دام اور معیار میں بہت تبدیلیاں آگئیں ہیں۔ ''

جب میری پاس کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں تھا تو سوچا کہ فن پارے بنا کر بیچوں، لیکن پھر خیال آیا کہ کیوں نہ میں مساجدوں میں مفت میں ہی خطاطی کرلوں، ہاتھ بھی اچھا ہو جائے گا اور کچھ دلی تسکین بھی اس کام سے حاصل ہوگی۔ میں نے بالکل ایسے ہی کیا اور بازار میں ایک دکان کے باہر لکھ کر لگا دیا کہ جس کو مساجد میں کلمہ یا کوئی خطاطی کروانی ہو مجھ سے رابطہ کرے، میں کام مفت کروں گا۔ یوں میں نے مساجدوں میں باقاعدہ لکھنے کا کام شروع کر دیا تھا۔

جب میں نے قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کے نام لکھنے شروع کیئے تو مقبولیت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ لیکن اعتراض بھی حد سے زیادہ کیا گیا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میرے گھر والوں نے ہندو ہو کر اس بات پر اعتراض نہ کیا۔ مگر کچھ لوگوں نے مجھ پر میرے مذہب پر میرے کام پر ہزار طرح کی باتیں بنائیں اعتراض کیا گیا۔

لوگوں نے میری پاکی و ناپاکی کے خلاف بولنا شروع کردیا جس پر میں نے باقاعدہ دلی کی جامعہ مسجد کے مفتیان سے رابطہ کیا اور باعزت ہوکر اپنے کام کو جاری رکھا۔

میں مانتا ہوں کہ میں ہندو ہوں، لیکن پاکی و ناپاکی، مسجد و مندر کے اصولوں سے بہت اچھے سے واقف ہوں، کبھی بھی وضو کئے بغیر مسجد میں داخل نہیں ہوا اور نہ مجھے مسجد کے آداب توڑنے یا خلاف ورزی کرنے کا شوق ہے، اپنے مذہب سے عقیدت رکھتا ہوں اور دیگر مذاہب کی عزت کرتا ہوں۔

جہاں مساجدوں میں کلمے، کلام اور خدا کا نام احترام سے لکھتا ہوں، وہیں مندروں میں بھگوان کی مورتی بھی بناتا ہوں، لوگ مجھے عزت سے بلاتے ہیں میں عزت سے تشریف لے جاتا ہوں، محبت اور بھائی چارگی کو پسند کرتا ہوں جیسا کہ مجھے میرے بڑوں نے سکھایا ہے۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts