میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد جہاں بہت سے سیاسی رہنماؤں کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا، انہیں میں میانمار کی سینئر سیاستدان آنگ سان سوچی بھی شامل ہیں آنگ سان سوچی کیخلاف مختلف مقدمات درج ہیں جس کے باعث انہیں انکے گھر پر ہی نظر بند کیا گیا تھا۔
لیکن آنگ سان سوچی کے وکلا نے کہا ہے کہ 24 مئی کو انکی عدالت میں پہلی پیشی تھی جس پر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور اسکے بعد وہ کہاں ہیں کسی کو کچھ نہیں معلوم لیکن ساتھ ہی ساتھ وکلا نے یہ مؤقف بھی اپنایا ہے کہ فوج نے ہی انہیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے کیونکہ فوج نے ہی انہیں گھر پر نظر بند کیا تھا
اور وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے انہیں کچھ بھی کھانے پینے کیلئے دیا جاتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کرتیں۔
اس کے علاوہ آنگ سان سوچی کے وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی کے ساتھ انکے گھر پر رہنے والا عملہ بھی غائب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی آنگ سان سوچی کے ساتھ نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے اور وکلا نے اس راز پر سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے کہ آنگ سان سوچی فوجی قید میں فوج کی طرف سے دی جانے والی غذائی اشیاء قبول نہیں کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ جب وہ کسی قسم کی بھی غذائی اشیاء لینے سے گریز کر رہی ہیں۔