“ایک بار جنید جمشید کے منہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کچھ الفاظ منہ سے نکل گئے تھے۔ انسان ہے، زبان صحیح طرح کبھی اظہار نہیں کرپاتی لیکن لوگوں نے اسے نہ بخشا۔ جنید جمشید جیسے عاشقِ رسول کو بھی مارا پیٹا جو کہ غلط تھا اور اسلام اس رویے کی اجازت نہیں دیتا“
یہ الفاظ ہیں مفتی طارق مسعود کے جو سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے اسلام کی روشی میں وضاحت کررہے تھے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ توہینِ رسالت کی تشریح کرنا علماء اکرام کا کام ہے اور فیصلہ کرنا جج اور ریاست کا کام ہے عوام کا نہیں۔ عوام کو سمجھانے کے لئے مفتی صاحب نے توہین رسالت کی 4 شرائط کو مثالوں کے ساتھ بھی سمجھایا۔
کسی کو اکسایا نہ جائے
مفتی طارق مسعود نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک مسلمان ایک ہندو سے لڑائی کے دوران اس کے مذہب کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور جواب میں ہندو نے بھی وہی رویہ اختیار کیا تو اس کا ذمہ دار ہندو کے بجائے مسلمان ہوگا کیونکہ اس نے ایک غیر مسلم کو غلط کلمات بولنے کے لئے اکسایا جبکہ اسلام ہمیں کسی کے عقیدے اور مذہب کو برا کہنے سے منع کرتا ہے۔
توہین کن الفاظ میں کی گئی ہے؟
آیا توہین واقعی میں کی گئی ہے یا آپ خود کسی کی بات کا انتہائی مطلب نکال کر اسے توہین قرار دے رہے ہیں؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ مفتی طارق مسعود کے مطابق الگ الگ قوموں اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے احترام کے معیارات الگ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں قرآن مجید کو بغیر وضو نہیں چھو سکتے کیونکہ یہ ہمارے احترام کا اظہار ہے لیکن عیسائی مذہب میں انجیل کو بغیر وضو کے پکڑنا عام بات ہے۔ جب تک توہین کے الفاظ اور مقصد واضح نہ ہوں اور شخص اس پر ڈٹا نہ رہے اسے توہین ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔
ہوش مند ہو
ایسا شخص جو ذہنی بیمار ہو یا اپنے حواس میں نہ ہو یا نابالغ ہو مفتی طارق مسعود کے مطابق اس کے کہے ہوئے الفاظ توہین میں شمار نہیں کیے جائیں گے۔ اسلام آسانی پیدا کرنے اور خیر کا مذہب ہے۔
فیصلے کا اختیار جج کے پاس ہے
آخری شرط کے بارے میں بات کرتے ہوئے مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ ان تمام شرائط کے بعد بھی فیصلے اور سزا کا اختیار صرف جج کے پاس ہے۔ اگر کوئی شہری جج کے فیصلے سے متفق نہ بھی ہو تو بھی اسلام کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا البتہ روزِ قیامت جج سے اس کے فیصلے کےبارے میں سوال و جواب ہوگا۔
علماء کی ذمہ داری
مفتی طارق مسعود کے مطابق توہین مذہب کیس میں زیادہ تر ایسے افراد جیلوں میں بیٹھے ہیں جو سچے عاشقِ رسول ہیں اور ان پر ذاتی چپقلش کی بنیاد پر جھوٹے کیسز بنائے جاتے ہیں۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے قانون بنائے لیکن یہ علماء کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو توہین رسالت کے بارے میں آگاہ کریں اور اس کے غلط استعمال سے روکیں کیوں کہ یہ علماء کا ہی شعبہ ہے۔
پاکستان کا غلط تاثر
مفتی صاحب نے پاکستان کے ابھرتے غلط تاثر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ کے بربریت بھرے اور خوفناک واقعے نے ساری دنیا میں پاکستان کا نام خراب کیا ہے۔
اسلام قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا
“اسلام نے ہر چیز کی ایک حد دی ہے۔ جب آپ حد سے باہر نکل کر کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا مقصد بھلے جو بھی ہو لیکن اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتا“ اس لئے اسلام کا نام لے کر جذباتیت میں انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہئیے۔