پچھلے دنوں کراچی کے مشہور سوپر اسٹور میں آگ لگ گئی جسے اب دو روز گزرنے کے بعد تک نہیں بجھایا جاسکا ہے۔ اس حادثے میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایسے نوجوان کی جان بھی چلی گئی جو اپنی نوکری کے پہلے دن کام کررہا تھا۔ اس حادثے کی افسوس ناک حقیقت بھی سامنے آچکی ہے جس کے تحت آگ لگی تو شارٹ سرکٹ کی وجہ سے تھی البتہ اسٹور والوں نے گودام میں کوکنگ آئل ذخیرہ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے آگ زیادہ تیزی سے پھیلی۔
اسٹور والوں کی ذخیرہ اندوزی سے آگ پھیلی
q
جنگ نیوز کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد عاصمہ بتول کا کہنا ہے کہ اسٹور والوں نے مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے گودام میں کوکنگ آئل کی ذخیرہ اندازی کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے آگ زیادہ پھیلی۔ آگ ابھی بھی لگی ہوئی ہے لیکن شدت پہلے سے کم ہے۔ آگ پارکنگ ایریا تک پہنچ چکی تھی جس کی وجہ سے 3 موٹر سائیکلیں بھی جھلس گئیں۔ آگ کی وجہ سے عمارت کا درجہ حرارت 500 تک چلا گیا تھا جو اب کم ہو کر 150 ڈگری تک آگیا ہے۔
حکومتی کارکردگی افسوس ناک ہے
اب اس پر حیرت کریں یا افسوس کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں دو دن گزرنے کے بعد بھی مصروف ترین علاقے میں آگ بجھانے کے لئے کوئی قابل عملہ نہیں، نا ہی ان بڑے بڑے اسٹورز کی ذخیرہ اندوزی چیک کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ ادارے الزام مالی وسائل پر ڈال دیتے ہیں اور مالی وسائل کی تقسیم حکومت کا کام ہے جو الزان تراشی کی سیاست میں اپنے فرائض سے ہمیشہ سے ہی منہ موڑے ہوئے ہے۔ ہمارے ووٹ کے ذریعے حاکم بنے بے حس حکمران کو اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس کے جوان بیٹے کی جان اس حادثے میں گئی اس کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ افسوس کے نیچے سے لے کر اوپر تک سب ہی عوام کے حقوق سے غافل ہیں۔