بیلن یا پھر چپل ۔۔ جانیے پاکستانی مائیں بچوں کی پٹائی کے لیے کون کون سے طریقے کا استعمال کرتی ہیں؟

image

ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کا بچہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو، وہ بچے کو مارنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے، اور ایک بیٹا بھی اپنی ماں سے مار کھانے میں شرم محسوس نہیں کرتا ہے۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو بتائیں گے کہ پاکستانی اور جنوبی ایشئین مائیں بچوں کی پٹائی کے لیے کون کون سے ہتھیار کا استعمال کرتی ہیں۔

ہینگر:

ہینگر پاکستانی ماؤں کا وہ ہتھیار ہے جو گھر میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے، اس ہتھیار کے استعمال سے ماں نے بیٹے کی عقل بھی ٹھکانے لگائی ہے اور شرارتوں کو لگام بھی دلائی ہے۔

اگرچہ ہتھیار کے استعمال کے دوران ہینگر ٹوٹ بھی جاتا تو اس کی سزا بچے کو مزید ملتی مگر بچے کو سبق ضرور مل جاتا۔ اگر آپ کی والدہ بھی ہینگر سے آپ کی درگت بناتی ہیں تو یقینا وہ آپ سے پیار بھی اتنا ہی کرتی ہیں، کیونکہ جس طرح والدہ کپڑے دھوتے ہوئے محنت کرتی ہیں اور پھر انہیں سکھاتی بڑے آرام سے ہیں بالکل اسی طرح والدہ بھی پہلے آپ کی طبیعت ہری کرتی ہیں اور پھر آپ کو پیار بھی کرتی ہیں۔

ڈنڈا:

یہ وہ ہتھیار ہے جو کہ عام طور پر نیچے کے گھروں میں رہنے والی خواتین استعمال کرتی ہیں، چونکہ نیچے کے گھروں میں چھپکلی، چوہے باآسانی آ جاتے ہیں تو انہیں بھگانے کے لیے گھر میں ایک ڈنڈا تو ہوتا ہے ہی، تو والدہ لگے ہاتھوں اسی ڈنڈے سے بیٹے کی مرمت بھی کر ڈالتی ہیں۔

جب گھر میں کیڑے آجائیں تو ڈنڈا ہی ماں کی مدد کرتا ہے، اسی طرح جب بچے پر شرارت کا جن چڑھ جائے تو ماں کے لیے ڈنڈا ہی مددگار ثابت ہوتا ہے

جھاڑو:

جھاڑو بھی ہتھیار تو ہے مگر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے، جب کوئی دوسرا ہتھیار آس پاس نہ ہو، لیکن چونکہ جھاڑو ناپاک ہوتی ہے، اسی لیے اسے استعمال کرتے ہوئے کئی مائیں رک جاتی ہیں۔ اور پھر اگلے ہتھیار کو ترجیح دیتی ہیں۔

چپل:

اب چپل تو ہر گھر میں ہی موجود ہوتی ہے، کوئی سخت ہوتی ہے توکوئی ربڑ والی نرم ، مگر جب دونوں پڑتی ہیں تو دن میں تارے ضرور دکھا دیتی ہیں۔

جب ایک ماں بچے کو چپل سے مارتی ہے، تو وہ اسے باور کرا رہی ہوتی ہے، کہ میرے پیروں تلے جنت ہے، یعنی ماں اپنی مامتا ہی دکھا رہی ہوتی ہے۔

ہاتھ:

اور پھر ہاتھ کا تو کیا ہی کہنا ہے، جب کا ہاتھ پڑتا ہے وہ بھی آٹا گوندنے والا یا کپڑے دھونے والا تو بیٹے کی بھی کاپنیں ٹانگنے لگ جاتی ہیں، دراصل یہ بھی والدہ کا ایک پیار کرنے کا انداز ہوتا ہے، کہ سدھر جا کیونکہ میرے بعد کوئی سدھارنے والا تیرے پاس نہیں آئے گا۔


About the Author:

Khan is a creative content writer who loves writing about Entertainment, culture, and Politics. He holds a degree in Media Science from SMIU and has been writing engaging and informative content for entertainment, art and history blogs for over five years.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.