پاکستان میں ان دنوں سیلاب کی وجہ سے مختلف شہروں میں تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے، ملک کے کئی شہروں میں بارش اور سیلاب میں ایک بچے کی تیرتی ہوئی لاش نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے لیکن افسوس کہ شام میں ساحل پر بچے کی لاش کی تصویر کی ڈی پی لگانے والے سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس واقعہ کو نظر انداز کردیا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا اس وقت چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے واقعات پر فوری ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور شام میں ساحل سمندر پر بچے کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی وجہ سے ہی پوری دنیا کی توجہ مبذول ہوئی تھی لیکن اس المناک واقعہ پر لوگوں نے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد یہ بچہ کسی ماں کا لعل نہیں تھا۔
کراچی میں بارش کے دوران ایک موٹرسائیکل سوار نالے میں جاگرا اور اس حادثے نے ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، نوجوان کی اہلیہ نالے میں گر کر جان سے گئی اور 2 ماہ کا بچہ نجانے کہاں بہہ گیا، وہ نوجوان رو رو کر دہائیاں دیتا رہا لیکن کراچی میں آج بھی کھلے نالے انتظامیہ کیلئے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
بارش سے قبل محکمہ موسمیات متعلقہ اداروں کو ہر طرح سے ہوشیار کردیتا ہے لیکن ہمارے اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، یہاں حادثے کے بعد حرکت کی جاتی ہے اور صرف فوٹو سیشن کی حد تک کام کرکے بعد میں معاملے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں قدرتی آفت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی غفلت کا بھی نتیجہ ہے جیسے کراچی میں کھلے نالوں کو لوگوں کا شکار کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ویسے ہی بلوچستان کے کرتا دھرتاؤں نے شدید بارش اور سیلاب کی پیش گوئی پر کان دھرنا مناسب نہیں سمجھا۔
درجنوں قیمتی زندگیاں ذمہ داران کی غیر ذمہ داری کی نظر ہوگئیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا نے بھی سیاسی افراتفری کے ماحول میں ان انسانیت سوز واقعات پر آواز اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔