غربت کسے پسند ہوسکتی اور کون ہوگا جو نرم بستر اور گرم گرم کھانے کو چھوڑ کر فٹ پاتھ اور مزاروں پر زندگی گزارنے کا انتخاب کرے لیکن قسمت ایسا پلٹا کھائے کہ روٹی کیلئے محتاج انسان اچانک لکھ پتی بن جائے۔ آج کی یہ دلچسپ کہانی بھی ایسے ہی ایک واقعہ سے جڑی ہے جس نے ایک لاوارث اور یتیم بچے کو اچانک لاکھوں کی جائیداد کا بلا شرکت غیرے مالک بنادیا۔
فلمی طرز کی کہانی بھارتی ریاست اتر کھنڈ کے شہر پیران کلیئر میں درگاہ پر رہنے والے شاہ زیب کی ہے جو ماں باپ کے جھگڑے کی وجہ سے پہلے باپ کی شفقت سے محروم ہوا اور پھر ماں کی ممتا بھی ساتھ چھوڑ گئی اور ننھا شاہ زیب ایک درگاہ کے پاس بھٹکتا زندگی کے دن گنتا رہا۔
شاہ زیب کے صبر اور دعاؤں سے قسمت ایسی چمکی کے چائے کے اسٹال پر 150 روپے یومیہ مزدوری کرنے والا شاہ زیب لکھ پتی بن گیا۔ شاہ زیب کبھی درگاہ پر رہتا تو کبھی آس پاس بھٹکتا، 150 روپیہ مزدوری میں سے 30 روپے میں رات کو کمبل اور بستر کرائے پر لے کر سوجاتاتھا۔
درگاہ پر آنے سے پہلے شاہ زیب جب آٹھ برس کا تھا تو اس کی زندگی کچھ اور ہی تھی، وہ اپنے والدین کے ساتھ اتر پردیش کے ضلع سہارنپور کے پانڈولی گاؤں میں رہتا تھا۔
2019 میں شاہ زیب کی والدہ عمرانہ بیگم کا اپنے شوہر محمد نوید سے جھگڑا ہو گیا جس کے بعد وہ شاہ زیب کو لے کر اپنے والدین کے گھر یمونا نگر چلی گئیں جو کہ ریاست ہریانہ میں ہے تاہم کچھ عرصہ بعد عمرانہ نے اپنے والدین کا گھر بھی چھوڑ دیا اور اتراکھنڈ کے ضلع ہریدوار کے شہر پیران کلیئر میں جا کر رہنے لگیں۔
یہاں شاہ زیب کی والدہ نے 15سو روپے کرائے پر ایک کمرہ لیا اور وہ درگاہ پر جھاڑو لگا کر اپنا اور بیٹے شاہ زیب کا پیٹ پالتی تھیں، کچھ عرصے بعد کورونا نے شاہ زیب سے اس کی ماں کو بھی چھین لیا اور درگاہ پر آنے والے لوگوں نے ہی عمرانہ کی آخری رسومات ادا کیں۔
ننھا شاہ زیب باپ سے علیحدگی اور ماں کے انتقال کے بعد درگاہ پر ہی رہتا اور گزر بسر کرتا تھا ، کھانے کیلئے کبھی درگاہ سے تو کبھی آس پڑوس کے گھروں سے کھانا مل جاتا لیکن ایک روز درگاہ کے قریب گھر میں آنے والے مہمان نے شاہ زیب کو پہچان لیا۔
یہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ شاہ زیب کا قریبی عزیز تھا جس نے شاہ زیب کو اس والد کی جائیداد دلوائی کیونکہ شاہ زیب اور اس کی ماں سے الگ ہونے کے بعد نوید کا انتقال ہوگیا تھا اس کی جائیداد کا وارث شاہ زیب تھا جس کی مالیت تقریباً پچاس لاکھ روپے ہے۔