ملک کو درپیش معاشی بحران کے پیش نظر ان تقرریوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک معاونِ خصوصی پر حکومت کتنا خرچ کرتی ہے؟
وزیر اعظم شہباز شریف نے آٹھ فروری کو سات نئے معاونین خصوصی کی تعیناتی کی ہےپاکستان کے وزیرِ اعظم کی جانب سے سات مزید معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد سے کابینہ کی کل تعداد 86 ارکان تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کے دوران مزید تقرریاں ہونے پر اس وقت سخت تنقید کی جارہی ہے۔ جہاں چند لوگ اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ان تقرریوں کی منطق کیا ہے، وہیں یہ سوال بھی کیے جارہے ہیں کہ ایک معاونِ خصوصی پر حکومت کتنا خرچہ کرتی ہے؟
معاون خصوصی کون ہوتا ہے؟
معاونِ خصوصی ٹیکنوکریٹ ہوتے ہیں جن کو ایک مخصوص مقصد کے لیے حکومت کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اور ان کے لیے عام انتخابات میں شامل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ تمام تر معاونینِ خصوصی بنیادی طور پر اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہوتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وزیرِ اعظم ایک وقت میں چار سے زیادہ مشیر نہیں رکھ سکتے لیکن معاونینِ خصوصی کی کوئی تعداد یا حد مقرر نہیں ہے۔
اور زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان ارکان کا کسی خاص شعبے سے ہونا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا اور وزیرِ اعظم کی جانب سے یہ تقرریاں ان کے عہدوں کی نشاندہی کیے بغیر کردی جاتی ہیں۔ اس کی مثال حالیہ دنوں میں ہونے والی سات تقرریاں ہیں جن میں ان تمام معاونینِ خصوصی کے عہدوں کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ جس سے ان کے عہدوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد کابینہ ان کے قلمدان یا ’پورٹفولیو‘ طے کرتی ہے اور اس کا اعلامیہ جاری کرتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں مقرر ہونے والے ان معاونینِ خصوصی کے پورٹفولیوز کے بارے میں اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
جبکہ حکومت کی جانب سے ان سات معاونینِ خصوصی کے ناموں کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ’پرو بونو یعنی عوامی بہبود کی تقرریاں ہیں۔‘
’تقرریاں اعزازی ہیں، خزانے پر بوجھ نہیں‘
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ یہ اعزازی ہیں اور عزت دینے کی غرض سے کی جارہی ہیں۔ ان تقرریوں سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑرہا ہےوزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے جیو ٹی وی کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں ایک سوال کے جواب میں کہا ’جو تقرریاں ہورہی ہیں وہ اعزازی ہیں اور عزت دینے کی غرض سے کی جا رہی ہیں۔ ان تقرریوں سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑرہا ہے۔‘
لیکن اتنے خراب معاشی حالات میں کابینہ کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کابینہ کا سائز اتنا ہی ہے جتنا تھا۔ یہ تو لوگوں کو عزت دینے والی بات ہے۔‘ تاہم رانا ثنا اللہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ معاونِ خصوصی کن شعبوں میں مقرر کیے ہیں۔
تجزیہ کار ہارون شریف نے بتایا کہ معاونِ خصوصی کی تقرری کا طریقہ کار غلط ہے۔ ’غلط بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ لوگ کیوں مقرر کیے گئے ہیں، ان کی تقرریوں کو ’اوپن اینڈڈ‘ رکھا جاتا ہے۔ یعنی آپ کوئی بھی مطلب اخذ کرلیں۔
آئین کے مطابق دو طرح کے وزیر ہوتے ہیں، ایک وفاقی وزیر اور دوسرا وزیرِ مملکت۔ ایسے میں معاونِ خصوصی کا درجہ وزیر مملکت سے جوڑا جاتا ہے تاکہ ان کو وہ تمام تر مراعات مل سکیں جو وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ ازخود معاونِ خصوصی کو کچھ نہیں مل سکتا اس لیے ایسا کیا جاتا ہے۔‘
جبکہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما محسن نواز رانجھا نے بتایا کہ ’حکومت کو انتخابی مہم کے ذریعے آنے والے افراد چلاتے ہیں نہ کہ سیلیکٹڈ افراد۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے اس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی تھی جب 1975 میں ترمیم کرکے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا اور پھر 1985 میں صدارتی حکم کے ذریعے اس پر باقاعدہ عمل کیا گیا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ معاشی بحران میں ایسی تقرریاں کرنا کیوں ضروری ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’اس وقت یہ تقرریاں بغیر کسی مراعات دیے کی گئی ہیں۔‘
البتہ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے تعینات ہونے والے معاونین تنخواہ تو نہیں لیں گے لیکن انھیں وزرا کو ملنے والی تمام مراعات حاصل ہوں گیں جن میں سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پیٹرول، علاج کی سہولت اور دوسرے الاؤنسس شامل ہیں۔
ایک معاونِ خصوصی پر کتنا سرکاری خرچہ آتا ہے؟
ایک وزیر مملکت کی عام طور پر ماہانہ تنخواہ 180000 روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ لیکن اس تنخواہ کے علاوہ چند چیزوں کا استحقاق ان وزرا کے پاس ہوتا ہے جن میں گاڑیاں ملنا، ماہانہ پیٹرول مختص کیا جانا، گھر کا کرایہ یا پھر گھر ملنا شامل ہوتا ہے۔
کابینہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اگر کسی معاونِ خصوصی کو وزیر مملکت کے درجے پر لایا جاتا ہے، جیسا کہ اس نوٹیفیکیشن میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے، تو ان کو وہ مراعات ملتی ہیں جو کسی وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ اس طرح سے ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے 10 لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے۔ جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول اور دفتر شامل ہیں۔ یہ ماہانہ خرچہ اس سے تجاوز بھی کرسکتا ہے۔‘ جبکہ رکن نے بتایا کہ ’انتخابات کے نزدیک اس طرح کی تقرریاں کی جاتی ہیں تاکہ ووٹ بنک میں اضافہ کیا جاسکے۔‘
اس وقت کابینہ میں ارکان کی تعداد اور معاونینِ خصوصی کی تعداد کتنی ہے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کابینہ کی کل تعداد 86 ہے جن میں سے 40 معاونینِ خصوصی ہیں۔ جبکہ اس وقت 38 قائمہ کمیٹیاں ہیں جن میں سے 22 کی سربراہی پی ڈی ایم کے ارکان کررہے ہیں۔