کون سی ٹوتھ پیسٹ اور کیسا برش؟ دانتوں کی صفائی کے صحیح اور غلط طریقے

ہم زندگی میں اس وقت سے دانت برش کرنا شروع کر دیتے ہیں جب ہم باتھ روم کے شیشے تک بھی نہیں پہنچ پا رہے ہوتے۔ مگر اس کے باوجود دانتوں کی صفائی کا ہمارا طریقہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔

ہم زندگی میں اس وقت سے دانت برش کرنا شروع کر دیتے ہیں جب ہم باتھ روم کے شیشے تک بھی نہیں پہنچ پا رہے ہوتے۔ مگر اس کے باوجود دانتوں کی صفائی کا ہمارا طریقہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔

سویڈون میں ایک تحقیق کے مطابق 10 میں سے صرف ایک شخص دانتوں کی صفائی کے بہترین طریقے کو اپناتا ہے۔ برٹش ہیلتھ انشورر بوپا کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں دو ہزار لوگوں کے سروے سےمعلوم ہوا کہ قریب نصف لوگ برش کرنے کے صحیح طریقے سے لاعلم ہیں۔

یونیورسٹی آف برمنگھم کے پروفیسر ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’جس کسی کو بھی ایک ڈینٹسٹ یا ماہر سے باقاعدہ ہدایات نہ ملی ہوں تو یہ قوی امکان ہے کہ وہ صحیح طریقے سے برش نہیں کرتے۔ میرے تجربے کے مطابق کسی بھی ملک کی اکثریتی آبادی کو صحیح طریقہ نہیں معلوم۔‘

یہ کوئی حیرت انگیز انکشاف نہیں کیونکہ دانتوں کو برش کرنے سے متعلق کئی طرح کی معلومات دستیاب ہیں۔ ایک تحقیق میں پتا چلا کہ مختلف ماہرین نے کم از کم 66 متضاد طریقے بتائے ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں اورل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے سربراہ نائجل کارٹر کا کہنا ہے کہ ’صارفین کے لیے یہ پریشانی کا باعث ہے۔ اس پریشانی کی وجہ مختلف ڈینٹل پراڈکٹس ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جیسے زبان صاف کرنے کے والے ٹنگ سکریپر سے لے کر انٹرڈینٹل واٹر جیٹس تک۔‘

دانت صاف کرنے کا مؤثر طریقہ کار

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’کئی مریضوں کو معلوم ہے کہ انھیں دانتوں میں پھسے کھانے کے باقیات کو نکالنا ہوتا ہے۔ یہ مکمل سچ نہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دانتوں سے بیکٹیریا کو نکالا جائے۔‘

بیکٹیریا اور دیگر مائیکرو آرگنزم منھ میں پیدا ہوتے ہیں اور ’ڈینٹل پلیگ‘ نامی بایو فلم بناتے ہیں۔ یہ 700 اقسام کے بیکٹیریا سے بنتا ہے (جو جسم میں آنت کے بعد سب سے زیادہ متنوع جگہ ہے)۔ یہاں مختلف قسم سے فنگس اور وائرس بھی پناہ لیتے ہیں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ دانتوں اور سافٹ ٹشو میں رہتے ہیں۔ اس چپکنے والی بایو فلم کو آسانی سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ اسے تکنیکی طور پر صاف کرنا درکار ہوتا ہے۔‘

اسے ہٹانے کی بہترین جگہ دانت نہیں بلکہ گم لائن ہے، یعنی وہ جگہ جہاں دانت ختم اور مسوڑھے شروع ہوتے ہیں۔ اس مقام پر سے ہی مائیکروبز مسوڑھوں کے ٹشوز میں داخل ہوسکتے ہیں اور پیریڈونٹائٹس جیسی مسوڑھوں کی بمیاریاں ہوسکتی ہیں۔ درحقیقت ’دانت برش‘ کرنے کی اصطلاح ہی ایک طرح سے غلط ہے۔

ہرشفیلڈ کے مطابق ’صرف دانت صاف کرنے کے بجائے آپ اپنی گم لائن کو صاف کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اس طرح آپ کے دانت خودبخود صاف ہوجائیں گے۔‘

تو ایسا کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

بایو فلم کو صاف کرنے کے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک ’ماڈیفائیڈ باس تکنیک‘ ہے۔ اس میں منھ میں برش لہرانے کے بجائے آپ کو مخصوص جگہوں پر برش کرنا ہوتا ہے۔

اس میں آپ کو اپنا برش دانت کے مقابلے 45 ڈگری کے اینگل (زاویے) پر رکھنا ہوتا ہے (یعنی برش کا رُخ جبڑے سے اوپر کی طرف ہوگا تاکہ آپ گم لائن کو صاف کر سکیں۔‘ اس طرح آپ گم لائن کے اردگرد برش ہلا سکتے ہیں۔

جب میں کچھ ویڈیوز دیکھنے کے بعد اس کا تجربہ کیا تو کچھ دیر بعد آئینے پر ٹوتھ پیسٹ کے چھینٹے پڑ گئے اور میرا برش نیچے گِر گیا۔

ہرشفیلڈ کی بتائی ہوئی تکنیک پر عمل میرے لیے کچھ مشکل تھا۔ ایسا لگا کہ میں دائیں کے بجائے بائیں ہاتھ سے کچھ لکھ رہا ہوں۔ لیکن وقت کے ساتھ میں نے گم لائن کے اوپر، نیچے، اندر اور باہر برش کیا۔ اس میں دو منٹ سے زیادہ وقت لگا اور میں نے ابھی فلاس بھی شروع نہیں کیا تھا۔

مگر بایو فلم کو نکالنے کے کچھ اور طریقے بھی ہیں۔ میں نے ماڈیفائیڈ سٹلمین تکنیک اپنائی جو ماڈیفائیڈ باس کی طرح ہے جس میں آہستہ آہستہ آپ بایو فلم کو آگے کی طرح دھکیل دیتے ہیں۔

ایک کے ہفتے تجربوں اور آئینے پر ٹوتھ پیسٹ کے چھینٹے پھینکنے کے بعد مجھے اب اس کی عادت پڑنے لگی ہے حالانکہ اس سے میرے مسوڑھوں میں سوجن ہوگئی ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں اپنی کوششوں میں بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہوں۔

ہرشفیلڈ کے مطابق یہ دباؤ 150 سے 400 گرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اگرچہ اس کے لیے بہترین دباؤ کا درجہ آج بھی زیر بحث ہے۔

سخت ٹوتھ برش سے زور سے برش کرنے سے مسوڑھوں کو چوٹ پہنچ سکتی ہے۔ اگر سافٹ ٹشو میں زخم پڑ جائے تو بیکٹیریا اس کی مدد سے خون میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور برش سے دانتوں پر بھی چھوٹے شگاف پڑ سکتے ہیں جو وقت کے ساتھ بڑے ہوسکتے ہیں۔

عام طور پر الیکٹرک برش استعمال کرنے والے لوگ دوسرے کے مقابلے اتنی زور سے برش نہیں کرتے۔ کئی الیکٹرک برشوں میں سینسر ہوتے ہیں جو زیادہ زور سے برش کرنے پر تنبیہ دیتے ہیں۔

کچھ روز تک میں نے ایک دوسری تکنیک اپنائی جو بچوں اور کم مہارت رکھنے والوں کو تجویز کی جاتی ہے۔ فونز نامی تکنیک میں آپ برش کو 90 ڈگری کے اینگل پر رکھتے ہیں اور دانتوں پر گول گول گھماتے ہیں جس سے گم لائن صاف ہوتی جاتی ہے۔ اگر دباؤ ٹھیک رہے تو یہ کرنا آسان ہے۔ مگر میں نے ماڈیفائیڈ باس میں بھی مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہرشفیلڈ کے مطابق ’ماڈیفائیڈ باس بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دانت سب سے موثر انداز میں صاف ہوتے ہیں اور اس دوران دانت اور مسوڑھوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔‘

تاہم اورل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے نائجل کارٹر کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ آپ بتائے گئے طریقے پر پوری طرح مہارت حاصل کریں۔ ’ڈینٹسٹ اور ہائیجین کے ماہرین آج کل آپ کے طریقے کا جائزہ لیتے ہیں اور اس میں بہتری کرواتے ہیں۔‘

کتنی دیر تک دانتوں کو برش کرنا چاہیے؟

امریکی ڈینٹل ایسوسی ایشن سمیت کئی ملکوں کے ادارے کم از کم دو منٹ تک روزانہ دو بار دانت برش کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ دو منٹ کتنے طویل ہوتے ہیں۔

مختلف تحقیقات سے پتا چلا کہ لوگ اوسطاً 33، 45، 46 یا 97 سیکنڈ تک ہی برش کر پاتے ہیں۔ جرمنی میں یوستس لبیغ یونیورسٹی میں ڈینٹسٹری کی پروفیسر کیرولینا گانز کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف 25 فیصد لوگ ہی اتنی دیر تک برش کرتے ہیں اور اس دوران وہ صحیح دباؤ اور حرکت ممکن بناتے ہیں۔

اس کام کے لیے آپ فون پر کوئی ایپ، باتھ روم میں گھڑی یا الیکٹرک ٹوتھ برش کا ٹائمر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ کارٹر کے مطابق عموماً زیادہ دیر برش کرنے سے بایو فلم کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ عام خیال ہے کہ دو منٹ میں دانت کی سطح اور گم لائن دونوں کو صاف کیا جاسکتا ہے۔ دو لوگ جو مسوڑھوں یا کسی دوسری بیماری مبتلا ہیں انھیں بایو فلم ہٹانے میں کچھ زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’برش کا دورانیہ انفرادی صورتحال پر منحصر ہے۔ اس کی وضاحت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس شخص کی دانتوں کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کے تمام دانتوں کی سطح صاف ہو اور اس کام کے لیے دو منٹ سے کم دورانیہ بھی لگ سکتا ہے۔‘

دن میں کتنی بار برش کرنا چاہیے؟

امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت مختلف ملکوں میں ہدایت دی جاتی ہے کہ باقاعدہ دن میں دو بار برش کرنا چاہیے۔ تاہم انڈین ڈینٹل ایسوسی ایشن دن میں تین بار برش کرنے کی تجویز دیتی ہے (یعنی لنچ کے بعد بھی برش)۔ جو لوگ منھ کی کسی بیماری سے متاثرہ نہیں انھیں ان ہدایات سے آگے اور پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ دانتوں سے بیکٹیریا نکالنے کے لیے دن میں دو بار سے زیادہ برش کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے منھ میں زخم بن سکتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ تجویز بھی کیا جاتا ہے۔ ’جن لوگوں نے بریسز پہنے ہوں ان کے دانتوں میں آسانی سے کھانے کے باقیات پھنس سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں کو ہر کھانے کے بعد برش کرنے کا کہا جاتا ہے۔‘

دو بار برش کا اس لیے بھی کہا جاتا ہے تاکہ خراب تکنیک کے باوجود دانت صاف رہیں۔ ’اگر آپ دن میں ایک بار بھی صحیح طریقے سے برش کر لیں تو یہ کافی ہوگا۔ کیونکہ پرانی پلیگ دانتوں میں زیادہ مسائل پیدا کرتی ہیں جیسے دانت کا سڑنا یا مسوڑھوں کے امراض۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی 100 فیصد درست نہیں۔ دو بار کا اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے پہلی باری میں غلطی کی ہو تو آپ دوبارہ اس کی تصحیح کر لیں اور ہر روز آپ کے دانت صاف رہیں۔‘

کھانے سے پہلے برش کریں یا بعد میں؟

ناشتے سے پہلے برش کرنا چاہیے یا بعد میں؟ ٹوتھ برش بنانے والوں سے لے کر دندان سازوں تک، بعض یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ناشتے سے پہلے برش کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بھی زیرِ بحث ہے۔

ہرشفیلڈ کے مطابق ’اس کی کوئی واضح ہدایات نہیں۔ مگر بعد میں برش کرنا بہتر ہے کیونکہ اس سے پلیگ کے علاوہ آپ دانتوں میں پھنسے کھانے کو بھی نکال سکتے ہیں۔‘

یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ ناشتے میں کیا کھاتے ہیں اور کس وقت کھاتے ہیں۔ کیونکہ بایو فلم دو چیزیں سے بنتی ہے: مائیکروبز اور ان کے لیے موجود غذا۔

یہ بھی پڑھیے

مزار کہانی: ’کیل ٹھونکو تو دانت کی تکلیف ختم‘

امریکہ میں پکڑی جانے والی 'انسانی' دانتوں والی مچھلی

تین عظیم عرب ریاضی دان جن کا جدید سائنس میں حوالہ آج بھی ملتا ہے

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’بیکٹیریا اور خوراک کے بغیر آپ میں کیویٹی (دانتوں کے بیچ کھالی جگہ) نہیں بن سکتی۔ اگر ناشتے سے پہلے آپ صحیح طریقے سے بیکٹیریا کو برش آؤٹ کر دیں تو بظاہر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی چینی کھاتے ہیں۔ اگر دانتوں میں کوئی بیکٹیریانہ تو وہ اس کھانے کے ذرات میں پیدا نہیں ہو سکتے۔ ’لیکن ایک بار برش کرنے کے دوران یہ ناممکن ہے کہ آپ مکمل 100 فیصد بایو فلم کو نکال دیں۔ خاص کر جب لوگ صحیح طرح برش بھی نہ کرتے ہوں۔‘

تو یوں ناشتے کے بعد برش کرنا بہتر ہے۔ ہرشفیلڈ کے مطابق ’اگر بیکٹیریا کے ساتھ آپ وہاں چینی کا بھی اضافہ کردیں اور ایک ساتھ اسے برش سے صاف کر دیں تو یہ بھی ٹھیک ہے۔‘

ناشتے کے بعد برش کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ کھانے کے بعد آپ کو برش کرنے میں کچھ وقت لگانا ہوتا ہے۔ امریکی ڈینٹل ایسوسی ایشن نے 60 منٹ تک انتظار کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھانے میں موجود تیزاب اور مائیکروبز سے پیدا ہونے والے تیزاب سے دانت وقتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ تیزاب دانتوں کی انیمل پرت پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس سے دانت وقت کے ساتھ نرم ہوسکتے ہیں۔ اس سے کیلشیم اور فاسفیٹ نکل سکتا ہے مگر تھوک میں موجود معدنیات سے یہ پرت دوبارہ قائم ہوسکتی ہے۔ ’دانت اس نظام کے تحت اپنی تعمیر نو کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس میں خلل ڈالتے ہیں اور انتظار نہیں کرتے تو برش استعمال کرنے سے یہ پرت ختم ہوسکتی ہے۔‘

کارٹر اس بات سے متفق ہیں کہ ناشتے سے پہلے یا بعد میں برش کیا جائے یہ بڑا سوال ہے۔ مگر ان کی رائے ہے کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کیا کھاتے ہیں۔ تیزابی کھانے جیسے کھٹے پھل، جوس یا کافی کی صورت میں آپ کو پہلے برش کر لینا چاہیے تاکہ آپ اس نظام میں خلل پیدا نہ کریں۔

شام کو برش کرنے کا سوال بھی اہم ہے اور اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ آپ سونے سے پہلے آخری کام دانتوں کو برش کرنے کا کریں۔

کارٹر کا کہنا ہے کہ تھوک قدرتی طور پر دانتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کو پیدا ہونے اور دانت خراب ہونے سے روکتا ہے۔ ’رات کے وقت تھوک کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے۔ تو اس لیے ضروری ہے کہ سونے سے پہلے پلیگ کو صاف کر لیا جائے۔‘

دانت کس چیز سے صاف کیے جائیں؟

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ایسے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ موجود ہیں جو شاید آپ کے دانت بہا لے جائیں۔ سخت ریشوں والے ٹوتھ برش، جنھیں دانت سفید کرنے کے نام پر بیچا جاتا ہے، اور سخت یا نوکیلے برش اس معاملے میں بدنام ہیں، خاص کر جب دونوں طرح کے برش ایک ساتھ استعمال کیے جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ برسوں یا دہائیوں میں ہونے والا عمل ہے جس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ دانتوں کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے جس سے دانت درجہ حرارت کے مقابلے حساس ہوجاتے ہیں اور دانتوں میں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔‘

بالغ افراد کے لیے ایسے برش بہترین ہیں جو درمیانے درجے کے ریشوں والے ہوں۔ ٹوتھ پیسٹ میں بھی کوئی سخت چیز نہیں ہونی چاہیے۔

ہرشفیلڈ کے مطابق برش کا اوپر کا حصہ چھوٹا ہو جسے ہر دانت پر استعمال کیا جاسکے۔ برش کو اس وقت تبدیل کر دیں جب اس کے ریشے اپنی اصل حالت میں نہ رہیں۔

افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں روایتی ٹوتھ برش کے علاوہ مسواک استعمال کی جاتی ہے۔ پلیگ نکالنے یا دانتوں کے بیچ خلا پیدا ہونے سے روکنے لیے یہ بہترین چیزیں ہیں۔ مگر غلط استعمال سے مسوڑھوں میں زخم بن سکتے ہیں۔

دیگر ٹوتھ برش کے علاوہ ایک مہنگا اور اچھا متبادل الیکٹرک ٹوتھ برش ہے۔ کئی برسوں تک ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ الیکٹرک ٹوتھ برش بلیگ نکالنے میں موثر ہوتے ہیں۔ (تاہم مصنفین کا کہنا ہے کہ ماضی میں انھیں الیکٹرک ٹوتھ برش کمپنیوں کی جانب سے فنڈز دیے گئے ہیں۔)

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ الیکٹرک برش میں حرکت خود بخود ہوتی ہے اور اسے ہاتھ نے کنٹرول نہیں کرنا پڑا۔ ایک دوسری وجہ برش ہیڈ کا سائز ہے۔ اس میں دباؤ کے سینسر موجود ہوتے ہیں جو زور لگانے پر صارف کو متنبہ کرتے ہیں۔ اس کے بغیر اینیمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ ’لیکن اگر آپ عام ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں تو اسے صحیح انداز سے استعمال کریں جس میں طریقہ اور دباؤ مناسب ہو۔ اس سے آپ کو الیکٹرک ٹوتھ برش جیسے نتائج ملیں گے۔‘

کیا آپ کو فلاس کرنا چاہیے؟

فلاس یعنی دھاگے سے دانت صاف کرنے کے متعلق تحقیق کی کمی کے بارے میں شکایات کے باوجود، دانتوں کی صحت سے منسلک بہت سی تنظیمیں اس عمل کے سخت حامی ہیں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ 'اگر آپ ہر دانت کو ایک مکعب کے طور پر سمجھتے ہیں جہاں پانچ سطحیں منھ کے ماحول کی زد میں ہوتی ہیں اور ان تمام حصوں میں بایوفلمز بڑھتی ہوتی ہین ایسے میں نصف حصے کو چھوڑ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔'

کارٹر کا اندازہ ہے کہ برطانیہ میں بہت کم آبادی یعنی 20 میں سے صرف ایک شخص عادتاً فلاس کرتا ہے۔ سنہ 2019 میں ہونے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میںایک تہائی بالغ افراد نے کبھی فلاس نہیں کیا۔

بہر حال دانتوں کے درمیان بننے والی بائیو فلمز سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد طریقہ فلاس نہیں ہے۔ آپ کے دانتوں کی بناوٹ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے دانت آپس میں گتھے ہوئے ہیں یا ان میں فاصلہ ہے۔ ایسی صورت میں ایک چھوٹا برش یا ایک باریک فلاس ہی کافی ہوگا۔جن لوگوں کو مسوڑھوں یا دانتوں کے مسائل ہیں، ان کے لیے دانتوں کے بیچ کے حصوں کی صفائی ایک بہترین موقع ہے۔

ہرشفیلڈ نے کہا: 'ہمارے بہت سے مریض دانتوں کے درمیانی حصے کی صفائی کے آلات کی وسیع اقسام استعمال کرتے ہیں، اس لیے ان کے پاس مختلف سائز کے پانچ یا چھ مختلف برش، فلاس اور دیگر برش ہوتے ہیں۔' وہ مزید کہتی ہیں کہ فلاسنگ میں گزارے گئے وقت کو آپ کے دو منٹ کی صفائی کا حصہ سمجھا جانا چاہیے، اور اسے دن میں ایک سے زیادہ بار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی جا کر دانتوں کا علاج کروانا نیا فیشن یا سستا مگر نقصان دہ متبادل؟

کیرالہ کا نوجوان جسے اپنے دانتوں کی وجہ سے سرکاری نوکری نہ مل سکی

سنہ 2011 میں رینڈمائزڈ کنٹرول ٹرائلز (آر سی ٹیز) کے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ اس بات کے بہت 'کمزور، انتہائی غیر معتبر شواہد ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ فلاسنگ اور ٹوتھ برش ایک یا تین ماہ میں پلاک (دانتوں کے گرد جمنے والے مادے) میں تھوڑی کمی کے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں' جبکہ زیادہ تر مطالعات میں یہ بات سامنے آئی اس میں طریقہ کار کی خامیاں ہیں۔برہ حال، اس جائزے کو اس اعتراض کے بعد میں واپس لے لیا گیا کہ 'ثبوت کی عدم موجودگی غیر موجودگی کا ثبوت نہیں ہے۔' بعد میں اس کے تازہ ورژن سے معلوم ہوا کہ مسوڑھوں کی سوزش کو کم کرنے میں اکیلے برش کرنے سے فلاسنگ کے ساتھ برش کرنا نمایاں طور پر بہتر ہے (کیونکہ سطحی مسوڑھوں کی بیماری، جو بعد میں مسوڑھوں کی گہری بیماری، یا پیریڈونٹائٹس کا باعث بن سکتی ہے)، حالانکہ اس بات کے شواہد کہ اس سے پلاک میں کمی آتی ہے 'کمزور' اور 'بہت زیادہ ناقابل اعتبار' ہیں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ 'اس قسم کا مطالع کرنا واقعی مشکل ہے۔' اس میں زیادہ لوگوں کی شمولیت حاصل کرنا مشکل ہے جو عام آبادی کی عکاسی کرتا ہو۔ ایک اور بڑا چیلنج مطالعے کو کافی دیر تک جاری رکھنا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ دانتوں اور مسوڑھوں کے مسائل کے واقعات کو کس طرح تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ایسا کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اس لیے ان شواہد کو کمزور کہا جاتا ہے۔'

کس قسم کا ٹوتھ پیسٹ بہترین ہے؟

ہرشفیلڈ اور کارٹر اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ بازار میں کیویٹی کی روک تھام سے لے کر دانت سفید کرنے اور حساسیت میں کمی تک مختلف ٹوتھ پیسٹوں کی بہتات ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مہنگے برانڈز کے پیسٹ آپ کی ضرورت کو پورا ہی کریں۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ 'میں نے واقعی کچھ سستے ٹوتھ پیسٹوں کے اجزاء کی فہرست دیکھی ہے جو بعض اوقات 40 پینس میں دستیاب ہیں۔ اور ان اجزا میں مجھے ان میں کوئی غلط چیز نظر نہیں آتی۔'

ہرشفیلڈکا کہنا ہے کہ ٹوتھ پیسٹ کے اوسط پیکٹ کے پچھلے حصے میں اجزاء کی طویل فہرست میں سے، خاص طور پر ایک جزو 'فلورائیڈ مواد' ہے جس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ یقینی طور پر کلیدی عنصر ہے۔ یہ بالغوں کے لیے کم از کم 1,350 حصہ فی ملین (پی پی ایم) بچوں کے لیے 1000 پی پی ایم ہونا چاہیے تاکہ اینامل یعنی دانت کی اوپر کی سفید تہہ کو تیزاب سے بچایا جا سکے۔

دانت کا اینامل انسانی جسم میں سب سے سخت ٹشو یعنی بافت یا نسیج ہے، اور فطرت میں پایا جانے والے سب سے مضبوط اور سخت ٹشو میں سے ایک ہے۔ ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ 'تقریباً ہیرے کی طرح سخت ہے۔' یہ زیادہ تر ایک معدنیات سے بنا ہے جسے ہائیڈروکسیاپیٹائٹ (ایک قسم کی کیلشیم فاسفیٹ) کہا جاتا ہے جو ایک پیچیدہ بلوری شیشے کیترتیب میں ہے جو سختی اور استحکام کو بڑھانے کے لیے پورے دانت پر مختلف شکلوں اور طور پر ہوتا ہے۔

لیکن مکینیکل قوت کے خلاف مدافعت کے باوجود یہ تیزاب میں آسانی سے تحلیل ہو جاتا ہے۔ بائیو فلمز میں موجود جرثومے شکر اور کاربوہائیڈریٹس کو ہضم کرنے سے ضمنی پروڈکٹ کے طور پر لیکٹک ایسڈ چھوڑتے ہیں جو ہمارے دانتوں کے درمیان پھنس سکتے ہیں۔ یہ لیکٹک ایسڈ بتدریج کیلشیم اور فاسفیٹ خارج کرتا ہے جس کے نتیجے میں اینامل آخر کار ریزہ ریزہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دانت کھوکھلے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔

لعاب میں قدرتی طور پر موجود مرکبات کھوئے ہوئے معدنیات کی جگہ لے سکتے ہیں۔ خاص طور پر، اگر فلورائیڈ موجود ہے (جیسا کہ یہ قدرتی طور پر دنیا کے کئی حصوں میں مٹی اور پانی میں ہوتا ہے)، تو اینامل فلوراپیٹائٹ کے طور پر کام کرتا ہے، جو ہائیڈروکسیاپیٹائٹ کے مقابلے تیزاب کے خلاف زیادہ مزاحم ہے۔ جب آپ برش کرنا ختم کر لیں تو اضافی تحفظ کے لیے ٹوتھ پیسٹ کو تھوکنے یا کلی کرنے سے پرہیز کریں تاکہ فلورائیڈ کو دانتوں کے گرد زیادہ دیر تک رہنے میں مدد ملے۔

ہرشفیلڈ کا کہنا ہے کہ 'چونکہ فلورائڈز ٹوتھ پیسٹ میں متعارف کرائے گئے ہیں، ہر جگہ جہاں فلورائیڈ والے ٹوتھ پیسٹ استعمال کیے جاتے ہیں جس سے کیویٹی پیدا ہونے کے واقعات میں کمی آئی ہے۔'

تاہم، کچھ فیشن کےلیے استعمال ہونے اجزاء کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ چارکول، جو ہزاروں سالوں سے دانت صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور تجارتی ٹوتھ پیسٹوں میں تیزی سے مقبول ہوتا رہا ہے، اس کے فوائد کو ثابت کرنے کے لیے کم تحقیق ہے۔ اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ چارکول دانتوں کو سفید کرتا ہے، اور یہ کہ اس سے دانتوں کے کٹاؤ اور دیگر مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ چارکول ٹوتھ پیسٹ کی اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل اور اینٹی وائرل خصوصیات کے بارے میں دعوے ثابت نہیں ہوسکتے۔ ایک جائزے کے مطابق دانت کے ڈاکلٹروں کو 'اپنے مریضوں کو چارکول اور چارکول پر مبنی [دانتوں کی مصنوعات] مصنوعات کیافادیت اور حفاظت کے غیر ثابت شدہ دعووں کے متعلق محتاط رہنے کی تاکید کرنی چاہیے۔'

بہت سے چارکول ٹوتھ پیسٹ میں فلورائڈ نہیں ہوتا ہے، اور اس وجہ سے ایسے پیسٹ کیویٹی سے کم تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، اگر کوئی ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرتا ہے جس میں فلورائڈ شامل نہیں ہوتا ہے، تب بھی اسے اپنے دانت صاف کرنے سے کچھ فائدہ ہوگا۔ کارٹر کا کہنا ہے کہ 'وہ بغیر پیسٹ کے برش سے بھی پلاک کو ہٹا سکتے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ زوال کی روک تھام کا فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ بنیادی طور پر ٹوتھ پیسٹ میں فلورائڈ سے حاصل ہوتا ہے۔'

ٹوتھ پیسٹ میں کچھ دیگر مقبول اضافی چیزیں کم متنازع ہوسکتی ہیں۔ ایک بڑے تجزیہ کے مصنفین کے مطابق بیکنگ سوڈا (سوڈیم بائک کاربونیٹ کے چھوٹے کرسٹل) پر مشتمل ٹوتھ پیسٹ پلاک کو ہٹانے کے لیے بہتر پایا گیا ہے، حالانکہ انھوں نے نوٹ کیا کہ اس ضمن میں مزید فالو اپ مطالعات کی ضرورت ہے (اس تحقیق کے مصنفین نے بتایا کہ انھوں نے ماضی میں ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ بنانے والوں سے فنڈز حاصل کیے تھے)۔ اسی تجزیے سے پتا چلا کہ بیکنگ سوڈا ٹوتھ پیسٹ مسوڑھوں کی سوزش کی وجہ سے خون بہنے میں معمولی کمی لا سکتا ہے۔

کیا آپ کو ماؤتھ واش استعمال کرنا چاہیے؟

کارٹر کا کہنا ہے کہ ماؤتھ واش پلاک کو ہٹانے میں دانتوں کو برش کرنے سے کم مؤثر ہے، لیکن جب دونوں کو ملایا جائے تو اکیلے برش کرنے سے تھوڑا زیادہ پلاک کو ہٹا سکتے ہیں۔ 'میں کہوں گا کہ یہ ایک بہت ہی مفید اضافی عنصر ہے، دانت صاف کرنے کی جگہ نہیں (لے سکتا) بلکہ ایک اضافے کے طور پر (مفید ہے)۔

تاہم ایک حالیہ متفقہ بیان کے مطابق کے یہ مسوڑھوں کی سوزش کے علاج کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ مفید ہونے کے لیے اس میں کم از کم 100 پی پی ایم فلورائیڈ ہونا چاہیے اور طبی طور پر ثابت ہونا چاہیے کہ یہ پلاک کو کم کرتا ہے۔ اور اس کا استعمال صرف اس صورت میں کرنا بہتر ہے جب آپ کے مسوڑھوں سے پہلے ہی خون بہہ رہا ہو، نہ کہ روک تھام کے اقدام کے طور پر۔

دانتوں کو مؤثر طریقے سے برش کرنے کے لیے اصطلاح کی کمی ہے اورشاید ایک 'میٹھا مقام' ہے۔ کافی برش نہیں کرنے سے بائیو فلم بنتی ہے اور اس سے کیویٹی بننے اور پیریڈونٹائٹس کا خطرہ لاحق ہو جاتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بہت زیادہ، یا بہت سخت برش کرنے سے اینامل وقت کے ساتھ آسانی سے صاف ہونے لگتا ہے۔ دانتون کی مثالی صفائی کے لیے برش کے ساتھ خلال اور فلاس ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کو مسوڑھوں کی سوزش ہے تو شاید ماؤتھ واش بہتر ہو سکتا ہے اور یہ مجموعی صحت کے لیے بھی زیادہ قابل قدر ہے۔

جیسا کہ مضامین کی اس سیریز کے ایک حصے میں دریافت کیا گیا ہے مؤثر ڈھنگ سے برش کرنا نہ صرف سانس کی بو، پیلے دانتوں اور کیویٹی کے خطرے کو کم کرنے کے مؤثر طریقے کے طور پر ابھر رہا ہے، بلکہ آگے جاکر اس سے ٹائپ 2 ذیابیطس، قلبی بیماری اور ذہنی زوال کے خطرے کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

نیو یارک یونیورسٹی کے روری میئرز کالج آف نرسنگ میں عالمی صحت کے ڈین پروفیسر بی وو کہتے ہیں: 'بڑھتے ہوئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیریڈونٹل بیماری اور حس کی خرابی کو جوڑنے کا ایک راستہ سوزش ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 'منھ کی اچھی صفائی رکھنے ینعی دانتوں کو مؤثر طریقے سے برش کرنے سے دانتوں کے پلاک کو کم کرنے اور مسوڑھوں کی سوزش کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔'


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.