پشاور پولیس لائن کی مسجد میں دھماکہ گذشتہ چند برسوں میں پولیس پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا جس میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ اس حملے کے بعد یہ بحث ہو رہی ہے کہ شدت پسندی کی تازہ لہر سے مقابلہ کرنے والی پولیس کو ریاست کی طرف سے کتنی توجہ دی جا رہی ہے؟

’وہ تو میرا بہت خیال رکھنے والا بیٹا تھا۔ اب اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔‘
پشاور پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے عاطف مجیب کے والدین اپنے بیٹے کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں۔ عاطف مجیب کی والدہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں جبکہ ان کے والد پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
پشاور اور خیبر پختونخوا میں صرف عاطف مجیب کا گھرانہ ہی نہیں سینکڑوں خاندان سوگ میں ہیں جہاں پشاور پولیس لائن کی مسجد میں دھماکے کے علاوہ بھی شدت پسندی کی تازہ لہر میں کئی پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
پشاور پولیس لائن کی مسجد میں دھماکہ گذشتہ چند برسوں میں پولیس پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا جس میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔
اس حملے کے بعد یہ بحث ہو رہی ہے کہ شدت پسندی کی تازہ لہر سے مقابلہ کرنے والی پولیس کو ریاست کی طرف سے کتنی توجہ دی جا رہی ہے؟
دوسری جانب پہلی بار اس دھماکے کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب سے احتجاج نے بھی اس بحث کو مضبوط کیا ہے۔
’جب معلوم ہوا کہ دھماکہ مسجد میں ہوا ہے تو میرا دل بیٹھ گیا‘
خیبرپختونخوا پولیس کے لیے یہ حالات نئے نہیں۔ اس سے قبل 2007 کے بعد بھی صوبے میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا تھا اور صوبائی پولیس ہی پہلا نشانہ بنی تھی۔
عاطف مجیب کی عمر لگ بھگ 34 سال تھی۔ جب پشاور پولیس لائن میں دھماکہ ہوا تو وہ ڈیوٹی پر تھے۔ ان کی والدہ ناز کہتی ہیں کہ ’عاطف کی شادی سے پہلے 2015 میں وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہنگو سے تربیت حاصل کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا کہ راستے میں بارودی مواد سے دھماکہ ہوا جس میں چھ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے لیکن عاطف محفوظ رہا تھا۔‘
’ہمیں اطلاع ملی کہ اس طرح دھماکہ ہوا ہے۔ گھر میں سب لوگ جمع ہو گئے تھے، سب پریشان تھے۔ اتنے میں عاطف آیا تو اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ خوفزدہ تھا لیکن کہہ رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔‘
پشاور پولیس لائن میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے عاطف مجیب کی والدہ اپنے بیٹے کو یاد کر کے روتی رہتی ہیںپشاور شہر کی ایک تنگ گلی میں واقع چھوٹے سے مکان میں عاطف کے خاندان کے افراد سے میری ملاقات پشاور پولیس لائن دھماکے میں ان کی ہلاکت کے بعد ہوئی۔
عاطف کے والد مجیب خان 85 برس کی عمر میں بیٹے کے غم میں نڈھال ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے بڑے بیٹے اور بھتیجوں اور بھانجوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔
اوپر دوسرے کمرے میں عاطف کی والدہ اور ساس ایک ہی کمرے میں بیٹھی تھیں۔ عاطف کی والدہ نے کہا کہ ’وہ بہت فرمانبردار بیٹا تھا، عبادت گزار تھا، قران کی تلاوت اور پانچ وقت کی نماز ادا کرتا تھا۔‘
’وہ ہمارا بہت خیال رکھتا تھا۔ ادویات اور دیگر تمام ضروریات کا اسے احساس تھا۔ ہمارا گزارا بہت اچھا ہو رہا تھا۔ صبح دفتر جانے سے پہلے اور واپس آتے ہی پہلے میری طرف آتا تھا، سلام کرتا اور دعاؤں کا کہتا تھا۔‘
عاطف کی والدہ نے بتایا کہ ’جب پولیس لائن میں دھماکہ ہوا تو مجھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ پولیس لائن میں دھماکہ ہوا ہے، عاطف کو فون کر رہے تھے لکن اس سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔‘
’سب کہہ رہے تھے کہ نیٹ ورک کام نہیں کر رہا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ دھماکہ مسجد میں ہوا ہے تو پھر میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میرا بیٹا باقاعدگی سے نماز پڑھتا تھا، تلاوت کرتا تھا۔ مجھے لگا کہ عاطف مسجد میں ہی ہو گا۔‘
’اس کے بعد اطلاع آئی کہ عاطف بھی مسجد میں تھا اور اب وہ نہیں رہا۔ گھر میں کہرام برپا ہو گیا۔‘
پولیس اہلکاروں کا احتجاج

پشاور پولیس لائن مسجد میں دھماکہ پاکستان کی تاریخ میں پولیس پر سب سے بڑا حملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ حملہ صوبے کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے مقام میں ہوا جس کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب سے احتجاج بھی کیے گئے۔
اس غیر معمولی احتجاج کے دوران پشاور پریس کلب کے سامنے پولیس اہلکاروں نے نعرہ بازی کی اور کہا کہ ’پولیس پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں اور پولیس اہلکاروں کو مارا جا رہا ہے لکن حکومت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔‘
ایک اہلکار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا کہ ’پولیس اہلکاروں کے لیے آواز اٹھائیں، زوزانہ کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کو مارا جا رہا ہے لیکن ان کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا، آخر ان پولیس اہلکاروں کا قصور کیا اور اور ان کی جنگ کس کے ساتھ ہے۔‘
اس مظاہرے کے دوران پشاور پریس کلب کے سامنے کچھ سینئر پولیس اہلکار اپنے ساتھیوں اور جونیئرز کو احتجاج سے منع بھی کرتے رہے۔
اس احتجاج کے بعد پولیس حکام نے صوبے کی سطح پر پولیس اہلکاروں سے رابطے کیے اور کہا کہ اس طرح کا احتجاج مناسب نہیں اور آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
بعد ازاں پولیس دربار سے انسپکٹر جنرل پولیس کے پی نے خطاب بھی کیا اور کہا کہ پولیس اہلکاروں کا خیال رکھا جائے گا لیکن یہ وردی اسی لیے پہنی ہے کہ یہ جہاد ہے اور اس جنگ میں انھوں نے عوام کا تحفظ کرنا ہے۔
حملے میں ہلاک اہلکار کی جگہ پر تعینات اہلکار کیا سوچتا ہے؟

پشاور کے مضافاتی علاقوں بڈھ بیر تھانہ، سربند تھانہ، متنی تھانہ اور ان کے ساتھ واقع پولیس چوکیوں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں جبکہ صوبے کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک اور بنوں میں پولیس تھانوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔
پشاور میں ضلع خیبر کے سرحدی علاقے باڑہ کے ساتھ واقع پولیس تھانہ سربند پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ماہ بھی اس تھانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں حملہ آور، جن کو کو جوابی کارروائی کے دوران پسپا ہونا پڑا، ایک ڈی ایس پی اور دو اہلکاروں پر فائرنگ کرکے فرار ہو گئے۔
تھانہ سربند میں تعینات ایک پولیس اہلکار سیار خان کو اس حملے کے بعد اب ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل ضرور ہیں لیکن ’یہ وردی اسی لیے پہنی ہے کہ وطن کا دفاع کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے تنگ ہیں بلکہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں ۔
سیار خان سے جب میں نے پوچھا کہ ان کو کن مسائل کا سامنا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنخواہ اور الاؤنس میں اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت ان کا راشن الاؤنس بہت کم ہے جبکہ انھیں جدید بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ فراہم کی جانی چاہیے۔
اس سے قبل جب ہم نے پشاور پریس کلب کے سامنے موجود اہلکاروں سے بات کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں آبادی کے حساب سے پولیس نفری بہت کم ہے اس لیے اکثر تھانوں میں مشکلات ہوتی ہیں۔
’ایک ایک اہلکار سے بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور بارہ گھنٹے تک مسلسل چاک و چوبند رہنا مشکل ہوتا ہے انسانی طور پر بھی یہ ناممکن ہے۔ دو سے تین گھنٹے بعد انسان کا جسم تھک جاتا ہے۔‘
ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ بعض تھانوں میں ہر چھ گھنٹوں کے بعد ڈیوٹی تبدیل کی جاتی ہے اور چھ گھنٹے کا آرام دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں کا کیا ہو گا؟‘ کانسٹیبل کا دم توڑنے سے قبل سوال
پشاور حملہ: خودکش بمبار پولیس لائن میں داخل کیسے ہوا؟ تفتیش کاروں کو درپیش بڑا سوال
خیبرپختونخوا پولیس کا احتجاج: ’پورا مہینہ خطرے میں روز 12 گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ صرف 40 ہزار‘

زخمی ہونے والے اہلکار عدم توجہی کا شکار؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں وہاں زخمی اہلکاروں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
ان چند دنوں میں کچھ ایسے پولیس اہلکاروں سے ملاقات ہوئی جو شدید زخمی ہونے کے بعد اب اپنا علاج خود کرا رہے ہیں یا ایسے جو بیماری کی وجہ سے ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہوئے۔
لکی مروت کے ایک پولیس اہلکار سے جب چند ماہ پہلے میرا رابطہ ہوا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ایک جھڑپ میں زخمی ہو گئے تھے۔
’زخم اتنے شدید تھے کہ میرا جبڑا کان اور آنکھیں اس سے متاثر ہوئی ہیں۔ جسم میں توازن رکھنا مشکل تھا اور بات چیت بھی بڑی مشکل سے کر پاتا ہوں۔ یہ علاج چند سال سے جاری ہے اور اب تک اس کے لیے اپنا خاندانی مکان اور زمین بیچ چکا ہوں۔ پولیس کی جانب سے شروع میں کچھ رقم ملی لیکن وہ تو آٹے میں نمک کے برابر تھی۔‘
ضلع خیبر پہلے وفاق کے زیر انتطام قبائلی علاقہ تھا جسے ’علاقہ غیر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس علاقے کی سرحد پر پشاور میں واقع تھانے مسلسل شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے جن میں متنی بڈھ بیر، سربند اور پشتخرہ کے تھانے شامل ہیں۔
ان تھانوں میں جب شدت پسندی عروج پر تھی تو بخاری شاہ یہاں تعینات رہے اور ان حملوں میں وہ کئی مرتبہ زخمی ہوئے۔ بخاری شاہ سے میری ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ان دنوں گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں یعنی ان کے گردے ناکارہ ہو گئے ہیں اور وہ اب ہفتے میں دو مرتبہ ڈائیلاسز کراتے ہیں۔
دوران ڈیوٹی ہر وقت متحرک رہنے والے بخاری شاہ اب انتہائی کمزور ہو چکے تھے۔ بات چیت بھی مشکل سے کر پا رہے تھے۔ انھوں نے اپنے سر اور پیروں پر زحم دکھائے جو شدت پسندوں کے حملوں کے دوران لگے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک مرتبہ مجھے خفیہ زرائع سے اطلاع ملی کہ مجھ پر حملہ ہو سکتا ہے اس لیے خیال رکھوں۔‘
’ہم جا رہے تھے کہ شدت پسندوں سے آمنا سامنا ہو گیا اور اس حملے میں متعدد شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔ مجھے بھی شدید زخم آئے لیکن میں نے پرواہ نہیں کی اور ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوران ڈیوٹی بیمار ہونے پر انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور اب ’اپنی مدد آپ کے تحت اپنا علاج کرا رہا ہوں۔‘
’پولیس کی جانب سے بہت زیادہ ہو تو ایک لاکھ روپے ملتے ہیں اور اگر حکام کو درخواست دی جائے تو ہزار یا پندرہ سو روپے دے دیتے ہیں۔‘
’ان دنوں ایک ڈائیلاسز پر پانچ سے دس ہزار روپے تک خرچہ آتا ہے اور اگر صحت انصاف کارڈ سے کرایا جائے تو یہ خرچہ تو نہیں ہوتا لیکن اس کی حد ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر صحت انصاف کارڈ کے حکام کو اپیلیں اور درخواستیں دینی پڑتی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’آپ ڈیوٹی پر ہیں تو کچھ دیکھ بھال ہو جاتی ہے لیکن اگر ریٹائر ہو جائیں تو کوئی حق نہیں ملتا نا ہی کوئی پوچھتا ہے، زبانی جمع خرچ بہت ہوتا ہے۔‘

پولیس حکام کا مؤقف
اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سابق انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری سے ایک اخباری کانفرنس میں یہ سوال ہوا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے اہلکاروں کے لیے پولیس کیا کر رہی ہے۔
جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’شہدا پیکج کے تحت ایک کروڑ روپے تک شہید کی بیوی بچوں کو مل جاتا ہے، تنخواہ جاری رہتی ہے اور کسی ایک فرد کو ملازمت بھی دی جاتی ہے لیکن زخمیوں کے لیے کوئی بڑا پیکج نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو چار سے پانچ لاکھ روپے دیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دوسری جانب شہدا کے پیکج کے حصول میں بھی ہلاک اہلکاروں کے خاندانوں کو اکثر مشکلات پیش آتی ہیں۔
پولیس کے مورال پرانسپکٹر جنرل پولیس کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا پولیس بہادر ہے۔ جو وردی یہ پہنتے ہیں وہ وطن اور عوام کی حفاظت کے لیے پہنتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پولیس اہلکاروں کا مورال بلند ہے اور جہاں تک ممکن ہو گا حکومت ان کو تمام ضروریات اور سہولیات فراہم کرے گی اور کوشش کی جائے گی کہ ان کے مطالبات پر عمل کیا جائے۔‘
کئی سال سے شدت پسندی کے واقعات کی رپورٹنگ کے تناظر میں حالیہ عرصے میں یہ بات اب شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ پولیس شدت پسندوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لیے پولیس کو حوصلے کے ساتھساتھ ریاست اور اس کے اداروں کی مسلسل اور غیر مشروط سپورٹ کی ضرروت ہے۔