امریکہ کا ’قومی سلامتی کی خاطر‘ نامعلوم خلائی اجسام کو مار گرانے کا دفاع

شمالی امریکہ کی فضائی حدود میں ’جاسوس‘ چینی غبارے اور تین دیگر اجسام کو مار گرانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ایسا قومی مفاد اور ’احتیاط برتنے کے لیے‘ کیا گیا۔
جان کربی
Getty Images

شمالی امریکہ کی فضائی حدود میں ’جاسوس‘ چینی غبارے اور تین دیگر اجسام کو مار گرانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ایسا قومی مفاد اور ’احتیاط برتنے کے لیے‘ کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ان سے کمرشل پروازوں کو خطرہ لاحق تھا اور انھیں ’امریکی شہریوں کے مفاد میں‘ گرایا گیا۔

چین کے مبینہ جاسوس غبارے کی نشاندہی اور اسے مار گرانے کے واقعے کے بعد سے امریکہ اپنی فضائی حدود کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔

تاہم بیجنگ کا الزام ہے کہ واشنگٹن بھی چین کی فضائی حدود میں غبارے اُڑا رہا ہے۔

13 فروری کو چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک برس کے دوران امریکہ دس مرتبہ چین کی فضاؤں میں اسی قسم کے غبارے اڑا چکا ہے۔

ترجمان چینی وزارتِ خارجہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دوسرے ممالک کی فضائی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہو جانا خود امریکہ کے لیے بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔‘

ادھر جان کربی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ ’ہم چین کی فضا میں جاسوسی کرنے والے غبارے نہیں اُڑا رہے۔ میں ایسے کسی طیارے سے واقف نہیں جو ہم (اس کام کے لیے) چینی فضائی حدود میں اڑا رہے ہوں۔‘

چین، غبارہ، امریکہ
Reuters
تاحال صرف چینی غبارے کا ملبہ امریکی حکام کے ہاتھ لگا ہے جبکہ تین دیگر خلائی اجسام کی تلاش جاری ہے

یاد رہے کہ 4 فروری کو امریکہ کی فضاؤں میں کئی دن تک گھومنے والے ایک مشتبہ چینی غبارے کو جنوبی امریکہ میں مار گرایا گیا تھا۔

امریکی حکام نے کہا تھا یہ غبارہ چین سے اُڑا تھا اور اس کا مقصد امریکہ میں حساس مقامات کی معلومات جمع کرنا تھا۔ چین نے اس الزام سے انکار کیا تھا کہ یہ غبارہ خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چین کا کہنا تھا کہ یہ غبارہ دراصل موسم سے متعلق معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے امریکہ نے جلد بازی میں مار گرایا۔

اس پہلے واقعے کے بعد گذشتہ تین دنوں میں امریکی جنگی طیارے مزید تین ایسے ہی زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والے فضائی اجسام تباہ کر چکے ہیں۔

جمعے کو صدر بائیڈن نے الاسکا کی فضاؤں میں ایک غبارہ تباہ کرنے کا حکم دیا تھا اور سنیچر کو بھی شمال مغربی کینیڈا میں یکون کی فضاؤں میں تیسرے غبارے کو تباہ کیا گیا تھا۔

ان غباروں پر امریکی انتظامیہ سے وضاحت مانگی جا رہی ہے مگر تاحال وہ تفصیلی طور پر ان کا جائزہ نہیں لے سکی۔

امریکہ اور کینیڈا دونوں ان کا ملبہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں الاسکا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے تلاش کے کام میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ چین کے ’جاسوس غبارے‘ اور تین دوسری اجسام میں فرق ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بعد کی تین اجسام ’زمین پر لوگوں کے لیے خطرے کا باعث نہیں‘ تاہم انھیں ’ہماری سلامتی، مفاد اور پروازوں کے تحفظ کے لیے‘ گرایا گیا۔

جان کربی کا یہ بھی کہنا تھا کہ الاسکا اور کینیڈا کے دور دراز علاقوں میں موسم سرما کے دوران ملبے کی تلاش مشکل ہے۔ جبکہ مشیگن میں گرائی گئی چیز کا ملبہ ہیورون جھیل کی گہرائی میں جاچکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکام تاحال ان چیزوں کا تفصیلی جائزہ نہیں لے سکے تاہم یہ خارج از امکان نہیں کہ انھیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بیجنگ ’انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کے لیے غباروں کا منصوبہ‘ چلا رہا ہے۔ انھوں نے اسے چینی فوج سے جوڑا اور کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی نشاندہی نہیں کی تھی۔

جان کربی نے کہا کہ ’ہم نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ ہم نے اسے ٹریک کیا ہے اور ہم بہت دھیان سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ جہاں تک ممکن ہو معلومات حاصل ہوسکے۔‘

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرین ژان پیر نے کہا کہ حالیہ واقعات میں ’خلائی مخلوق کی کوئی علامت نہیں۔‘

جان کربی کے مطابق تینوں چیزیں رابطے کا سگنل نہیں بھیج رہی تھیں، ان میں لوگ نہیں تھے اور نہ ہی ان میں پروپلشن (ایندھن کی طاقت سے چلنے) یا راستے بدلنے کی صلاحیت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں چیزوں کی اڑان چینی غبارے سے نیچے تھی جس نے شہری ایئر ٹریفک کو خطرے میں ڈالا تھا لہذا کینیڈا اور امریکہ کی افواج اور قیادت نے انھیں گرانے کا فیصلہ کیا۔

US fighter jet
AFP

’یہ چیز خارج از امکان نہیں کہ غبارے کوئی خلائی مخلوق تھی‘

صدر جو بائیڈن نے ایک ایسی ہی چوتھی خلائی شے کو تباہ کرنے کا حکم دے دیا تھا جسے اتوار کو مار گرایا گیا ہے۔

امریکہ کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ شے 20 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہی تھی اس لیے خدشہ تھا کہ اگر اسے گرایا نہ گیا تو مسافر بردار طیاروں کی پروازوں میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔

امریکی افواج کے ایک کمانڈر کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ اجسام ’گیس کے غبارے یاکسی قسم کے پروپلشن سسٹم ہوں۔‘ تاہم کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ اس امکان کو بھی رد نہیں جا سکتا کہ یہ اجسام یو ایف او یا کسی خلائی مخلوق کی طرف سے بھیجے گئے خلائی اجسام ہوں۔

سرکاری حکام کے مطابق جس چوتھی خلائی شے کو کینیڈا اور امریکہ کی سرحد کے قریب ریاست مشیگن کی جھیل ہیرون کی فضا میں نشانہ بنایا گیا، وہ ایک ’آٹھ رخی‘شے تھی جس کے ساتھ تار یا باریک رسی جیسی چیزیں لگی ہوئی تھیں۔

اتوار کو مشیگن کے وقت کے مطابق اس شے کو دن دو بجکر 42 منٹ پر ایک ایف 16 طیارے کے ذریعےمارے گئے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔

اس واقعے کے بعد گذشتہ ایک ماہ کے دوران شمالی امریکہ میں گرائے جانے والے غبارہ نما اجسام کے حوالے سے اٹھنے والےسوالات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

امریکی افواج کی ناردرن کمانڈ کےسربراہ، جنرل گلین وینہرک کا کہنا تھا کہ انھیں ان اجسام سے کسی قسم کے خطرے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

’میں انھیں غبارے نہیں کہوں گا۔ ہم انھیں فضائی اجسام کہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ ہے۔‘

’ہم جو جو چیز دیکھ رہے ہیں وہ اصل میں نہیات چھوٹے چھوٹے (فضائی) اجسام ہیں اور ریڈار پر ان کا قطر نہایت ہی کم دکھائی دیتا ہے۔‘

یہ اجسام آخر ہیں کیا، اس حوالے سے گذشتہ چند دنوں میں افواہوں میں تیزی آ گئی ہے۔

جب جنرل وینہرک سے پوچھا گیا کہ آیا یہ اجسام کوئی دوسری خلائی مخلوق ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’میں یہ چیز اینٹیلی جنس برادری اور (دوسرے ممالک کی خفیہ کارروائیوں) کا تدارک کرنے والے اہلکاروں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کھوج لگائیں۔‘

تاہم ’میں نے اس موقع پر کسی چیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔‘

US Senate Majority Leader Chuck Schumer
Getty Images
کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئیر رکن چک شومر نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ (چین کی جانب سے ) یہ فضائی اجسام خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے

دوسری جانب سنیچر کو واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ممکن ہے انہیں چوتھے غبارے کا پتہ اس لیے چل گیا ہو کیونکہ انھوں نے ریڈار اور دیگر سینسرز کا دائرہ کار بڑھا دیا۔‘

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذکورہ افسر نے امریکی فضائی حدود کی نگرانی میں اضافے کو نئی کار کے خریدار سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہی جیسے کوئی خریدار انٹرنیٹ پر کار تلاش کرتے ہوئے کچھ اور باکِسز پر ٹِک کر دیتا تاکہ انٹرنیٹ اسے زیادہ سے زیادہ کاروں کے نمونے پیش کرے۔

ایک اور سینیئر اہلکار نے امریکی چینل اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں جن تین اجسام کو مار گرایا ہے، ممکن ہے وہ موسم کا جائزہ لینے والے غبارے ہوں اور ان کا مقصد سراغرسانی نہ ہو۔

لیکن لگتا ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینئیر رکن اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ انھوں نے اسی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ (چین کی جانب سے ) یہ فضائی اجسام خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔

سینیٹر چک شُومر کا کہنا تھا کہ حکام کو یقین ہے کہ یہ اجسام غبارے ہی تھے، لیکن یہ اس پہلے غبارے کی نسبت بہت چھوٹے تھے جسے ریاست جنوبی کیرولائنا کے ساحل کے قریب گرایا گیا تھا۔

ریاست مشیگن سے سینیٹ کے کئی دیگر ارکان کی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن ڈیبی ڈِنگل نے بھی اتوار کو ریاست میں ایک غبارے کو مار گرانے پر امریکی فوج کی تعریف کی، تاہم انھوں نے وائٹ ہاؤس اور عسکری حکام پر زور دیا ہے کہ اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کی جائیں۔

’ہمیں حقائق درکار ہیں کہ یہ (غبارے) کہاں سے اڑائے جا رہے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے، اور ان کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔‘

دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدر بائیڈن کو مسلسل تنقید کا سامنا ہے اور پارٹی کا کہنا ہے کہ پہلے مشتبہ غبارے کو بھی بہت پہلے گرا دینا چاہیے تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.