سیسٹائٹس: مثانے کی تکلیف دہ بیماری جس میں تقریباً 50 فیصد خواتین مبتلا ہیں

یو ٹی آئی کی علامات میں پیشاب کرتے وقت درد یا جلن، بار بار یا اچانک پیشاب کرنے کی خواہش،، پیشاب میں خون آنا، بدبودار پیشاب، کمر یا پیٹ کے نچلے حصے میں درد ، اور بخار یا سردی لگنا شامل ہیں۔
یو ٹی آئیز
Getty Images

نیروبی میں ایک ویڈیو ایڈیٹر میلیسا ویریمو کے لیے بیماری کی علامات 21 سال کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ انھیں مسلسل پیشاب کرنا پڑتا تھا اور جب وہ کرتی تھیں تو وہ جلتا تھا۔ ان کی کمر میں بھی درد رہتا تھا۔

یورین کلچر میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن (UTI) کا پتہ چلا ۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یو ٹی آئی جیسی کوئی چیز ہوتی ہے۔‘

انھیں سات دنوں کے لیے ایک وسیع سپیکٹرم اینٹی بائیوٹک تجویز کی گئی اور انھیں وافر مقدار میں پانی پینے کو کہا گیا۔

لیکن علامات واپس آتی رہیں، کبھی کبھی بہت زیادہ شدت سے۔ ان کی کمر میں درد ان کے پیٹ تک پھیل گیا۔ وہ مسلسل تھکا ہوا محسوس کرتی تھیں، لیکن لیٹنے میں انھیں بے چینی محسوس ہوتی تھی۔

وہ بتاتی ہیں ’آپ کو یہ احساس رہتا ہے کہ آپ کو باتھ روم جانا پڑے گا۔‘

اس نے انھیں بیدار رکھا۔ اور نیند نہ آنے کی وجہ سے تھکاوٹ بڑھ گئی، جس سے ان کے کام کے سخت شیڈول کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔

ویریمو کو لگتا ہے کہ ان کے ڈاکٹروں نے ان کی بات نہیں سنی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے یو ٹی آئیز جنسی تعلقات سے ہو سکتے ہیں، حالانکہ وہ جنسی تعلق نہیں کر رہی تھی۔

ڈاکٹر قیاس آرائیاں کرنے اور مختلف اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے میں جلدی میں نظر آئے، لیکن ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔

ویریمو کو ان چھ ڈاکٹروں سے ہمدردی ہے جن سے وہ گزشتہ برسوں میں ملیں، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے پاس بار بار آنے والے یو ٹی آئیزسے نمٹنے کے لیے کافی تربیت نہیں تھی۔ لہٰذا انھیں اپنی معلومات خود ڈھونڈنی پڑیں، انٹرنیٹ کو کھنگھالتےجہاں انھیں ایسے ہی حالات میں لوگوں کی کہانیاں ملیں۔

اس کی وجہ سے وہ مریضوں کے حالات بیان کرنے والے گروپ لِو یو ٹی آئی فریLive UTI Free تک پہنچ گئیں، جہاں وہ اب کام کرتی ہے۔

یو ٹی آئیز
Getty Images

مایوسی

ویریمو نے اپنی خوراک کو تبدیل کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی علامات کو کس چیز سے دور رکھا جائے گا۔ چار سال بعد، مسئلہ دور نہیں ہوا ہے، لیکن وہ علامات کو کنٹرول میں رکھ پاتی ہیں۔

انھوں نے ایک کے بعد ایک ڈاکٹر بدلا لیکن ان کا مسئلہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔اگر کوئی علاج کام کرنا بھی تو صرف مختصر مدت تک کام کرتا۔

یہ وہ تجربات ہیں جو ویریمو ان کی ہر طرح ’پیچیدہ‘ یو ٹی آئیز سے متاثرہ افراد نے بیان کیے، ایسے افراد جن کا علاج میں ناکامی کا زیادہ خطرہ رہا صرف امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 250,000 کیسز سالانہ ہیں۔

بہت سے مریض، ڈاکٹر اور محققین مایوس ہیں کہ یو ٹی آئی باقاعدہ اور زیادہ پیچیدہ شکلوںسے نمٹنے میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، لیکن انھیںامید ہےکہ تبدیلی آئی گی۔

یو ٹی آئیز
Getty Images
یو ٹی آئیز مریضوں میں بخار، سردی لگنا، پیٹ کے نچلے حصے یا کمر میں درد کے ساتھ ساتھ پیشاب کے ساتھ جلن کا سبب بن سکتا ہے

انفیکشن سے متعلق کم معلومات

یو ٹی آئی کی علامات میں پیشاب کرتے وقت درد یا جلن، بار بار یا اچانک پیشاب کرنے کی خواہش، پیشاب میں خون آنا، بدبودار پیشاب، کمر یا پیٹ کے نچلے حصے میں درد ، اور بخار یا سردی لگنا شامل ہیں۔

ایسا عام طور پر ای کولی نام بیکٹریاکی وجہ سے ہوتا ہے۔

برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن کے سینٹر فار یورولوجیکل بائیولوجی کی ڈائریکٹر جینیفر روہن کے مطابق، بہت سے دوسرے بیکٹیریا بھی اس کے لیے ذمہ دار ہو سکتے ہیں، لیکن ان پر محدود تحقیق ہے اور یہاں تک کہ ای کولی کا تعلق بھی نایاب ہے۔

برطانیہ میں فری مین ہسپتال اور نیو کاسل یونیورسٹی کے یورولوجسٹ کرس ہارڈنگ بتاتے ہیں کہ یو ٹی آئیز یا یشاب کے انفیکشنز ہیں کہسیسٹائٹس، یا مثانے کی سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔ کی دوسری قسمیں ہیں، لیک سیسٹائٹس سب سے عام ہے۔

عام طور پریو ٹی آئیز انتہائی عام ہیں، جو کم از کم نصف خواتین کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موقع پرمتاثر کرتی ہیں۔

روہن کا کہنا ہے کہ یہ خاص طور پر نوجوان، جنسی طور پر فعال خواتین اور ایسی خواتین میں عام ہے جنھیں مینو پاز ہو چکا ہوتا ہے۔

جینز ، ہارمونز، اور اناٹومی سبھی اس کی وجہ بنتے ہیں۔ خواتین اور لڑکیاں خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں کیونکہ مردوں کے مقابلے ان کی پیشاب کی نالی چھوٹی ہوتی ہے اور اس لیے بیکٹیریا زیادہ آسانی سے مثانے تک پہنچ سکتے ہیں۔

اگرچہ یو ٹی آئیز کو ایک متعدی بیماری کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے لیکن وہ متعدی نہیں ہے۔ تاہمذمہ دار بیکٹیریا جنسی ملاپ کے دوران ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

لیکن مردوں کو یو ٹی آئی ہو سکتا ہے خاص طور پر جب وہ بڑی عمر کے ہوں۔ نرسنگ ہومز میں، پیشاب کے انفیکشن سب سے عام قسم کے انفیکشن ہیں۔

عالمی سطح پریو ٹی آئیزہر سال ایک اندازے کے مطابق 15 کروڑافراد کو متاثر کرتے ہیں، لیکن یہ پہلے سے ہی وسیع تر مسئلہوقت کے ساتھ ساتھ اور بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔

روہن کے بقول ’اسوجہ کے ساتھ بوڑھے لوگ ہسپتال میں آتے۔‘

یو ٹی آئیز
Getty Images
کچھ لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ غذائیں، جیسے چاکلیٹ، سیسٹائٹس کی بیماری کو متحرک کرتی ہیں

بحیثیت عورت ایک عام بات

چونکہ یو ٹی آئی عام طور پر غیر پیچیدہ ہوتے ہیں اس لیے بہت سے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ عورت ہونے کے ناطے یہ جانا عام بات ہے۔ لیکن اس رویے سے سنگین ترین معاملات کو معمولی قرار دینے کا خطرہ پوتا ہے، جو کہ بے شمار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ویریمو کی طرح، کم از کم 25 فیصد خواتین کو بار بار یو ٹی آئی ہوتا ہے، چھ ماہ میں کم از کم دو یا سال میں تین بار، بہت سے لوگوں کو اس سے بھی زیادہ بار ہوتا ہے۔

بار بار آنے والے یو ٹی آئیز کے علاوہ، دائمی یوٹی آئیز کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے، جسے بعض اوقات طویل مدتی یاپرت دار کہا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر کچھ لوگ ہر وقت علامات کے ساتھ رہتے ہیں۔ تاہم، اس حالت کی تقریباً کوئی مستقل شناخت نہیں ہے۔

یہاں تک کہ نسبتا سادہ یو ٹی آئیزیاد کر رہے ہیں. یو ٹی آئیز کی تشخیص کے عام طریقے پیشاب کے ڈپ اسٹک ٹیسٹ اور پیشاب کلچر ہیں، لیکن یہ اتنے حسّاس نہیں ہیں کہ قابل اعتماد ہوں۔

اس کے برعکس، نئے مالیکیولر ٹیسٹ بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، یہ کسی بھی پیتھوجین کو شناخت کر لیتے ہیں چاہے ان کا مسئلے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لیکن یہ ٹیسٹ مہنگے ہیں۔

روایتی پیشاب کے ٹیسٹ سستے تو ہیں لیکن وہ اکثر گمراہ کن ہوتے ہیں۔ پیشاب کا کلچر ٹیسٹ، جس میں لیبارٹری میں پیشاب کے نمونے سے بیکٹیریا کی افزائش کا پتا چلا جاتا ہے، یہ 1950 کی دہائی میں ان حاملہ خواتین کے لیے تیار کیا گیا تھا جنہیں گردے میں انفیکشن تھا۔

دوسرے لفظوں میں یو ٹی آئیز کے لیے ایک معیاری ٹیسٹ پرانی تحقیق سے اخذ کیا گیا ہے جو یو ٹی آئیز کے لیے بھی مخصوص نہیں تھا۔

یو ٹی آئیز
Getty Images
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کرینبیری کا رس سیسٹائٹس کے علاج میں مدد کر سکتا ہے، لیکن شواہد انتہائی ملے جلے ہیں

فرسودہ تعلیم

جیسا کہ ٹیسٹنگ کے ساتھ، طبی تعلیم بھی پرانی ہے۔ ہارڈنگ نے میڈیکل کے طالب علم کے طور پر سیکھا کہ مثانہ جراثیم سے پاک ماحول ہے۔ اس مشہور غلط فہمی نے مثانے میں بیکٹیریا کے ثبوت کی تشریح کے بارے میں الجھن پیدا کردی ہے۔

آج تک، روہن میڈیکل کے طلبا کو لیکچر دیتے ہیں جو اس غلط تصور کو مانتے ہیں کہ پیشاب جراثیم سے پاک ہے۔

کیرولین اینڈریو، جو کہ یو کے میں مریضوں کے لیے ایک ایڈوکیسی گروپ، دائمی پیشاب کی نالی کے انفیکشنز (کیوٹک) پر مہم کی ڈائریکٹر ہیںکہتی ہیں کہ محققین ثبوتوں کی کمی سے واقف ہیں، یہ معلومات ’طبی مشق میں فلٹر نہیں ہوتی‘۔

غلط تشخیص

بہت سے لوگوں کی طرح جو دائمی یو ٹی آئیز میں مبتلا ہیں، اینڈریو کی ابتدائی طور پر غلط تشخیص ہوئی تھی۔

جب ان میں پہلی بار علامات ظاہر ہوئیں تویو ٹی آئیز ٹیسٹ منفی تھے اور اینڈریو کو انٹرسٹیشل سیسٹائٹس (IC) یا مثانے کے درد کے سنڈروم کی تشخیص ہوئی۔ آئی سی کا علاج تکلیف دہ تھا اور ان کے لیے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔

اگلے سال، جب اس نے ایک ماہر کو دکھایا، تو آخرکار ان کے دائمی یو ٹی آئیز کا علاج ہوا۔ ’خدا کا شکر ہے کہ کوئی میری بات سن رہا تھا۔‘وہ سوچا کرتی تھیں۔ اینٹی بائیوٹکس کی مدد سے انفیکشن کو مکمل ختم ہونے میں تقریباً چار سال لگیں گے لیکن اینڈریو شکر گزار ہیں۔

اینڈریو کا خیال ہے کہ غیر موثر ٹیسٹوں کے بجائے علامات کی بنیاد پر تشخیص سے انھیں کچھ جواب ملتے۔

روہن بتاتے ہیں کہ علامات پر مبنی تشخیص خاص طور پر بار بار آنے واے یو ٹی آئیز والے لوگوں کے لیے عام فہم کی بات ہے کیونکہ وہ اپنے جسمانی اشارے کو پہچان سکتے ہیں۔

روہن کا کہنا ہے کہ ’شاید ہم خواتین اور ان کی علامات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر سکتے ہیں‘۔

جینیفر روہنکا خیال ہے کہ تصورات کا ایک ’کامل طوفان‘ یہ بتاتا ہے کہ کیوں یو ٹی آئیز کو اس قدر نظرانداز کیا گیا ہے:’یہ خواتین کی بیماری ہے۔ یہ بوڑھوں کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ اور یہ وہیں ہے‘۔

روہن کہتی ہیں’اسےاب بھی معمولی سمجھا جاتا ہے‘۔

چونکہ یو ٹی آئیز عام طور پر مہلک نہیں ہوتے ہیں، وہ دوسرے انفیکشن کی طرح فنڈنگ اور توجہ کی سطح کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے۔ لیکن پیشاب کی نالی کا انفیکشن سیپسس یا گردے کا انفیکشن موت کا سبب بن سکتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ بیکٹیریل انفیکشن بہت خطرناک ہیں اگر ان کا صحیح علاج نہ کیا جائے۔‘

یہ انفیکشن نہ صرف خطرناک ہو سکتے ہیں بلکہ متاثرہ افراد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کو بھی گہرا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

یو ٹی آیز کا علاج کروانے سے پہلے اینڈریو اپنے مثانے میں مسلسل درد اور دباؤ کے ساتھ رہتی تھیں۔

پیشاپ کے انفیکشنز کے حوالےس سے کام کرنے والے ادارے کیوٹک کے ساتھ اپنے کام کے دوران انھوں نے لوگوں کو اتنا مایوس دیکھا ہے کہ وہ اپنے مثانے کو ہٹا دینے کو کہتے ہیں۔

یو ٹی آئیز
Getty Images
برطانیہ میں، خواتین میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا معیاری کورس تین دن کا ہے

اینٹی بائیوٹک کا مخمصہ

ان خوش نصیبوں کے لیے جو یو ٹی آئیز کی درست تشخیص کر پاتے ہیں، علاج ایک بارودی سرنگوں کا میدان ہو سکتا ہے۔

کینیا میں، ویریمو کو تقریباً اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں۔

برطانیہ میں، خواتین میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا طے شدہ کورس تین دن کا ہے۔ مردوں کے لیے، جن کے کیسز پیچیدہ سمجھے جاتے ہیں، پہلے سے طے شدہ ٹائم فریم سات دن ہے۔ یہ فرق کچھ لوگوں کے لیے مایوس کن ہے۔

روہن کا خیال ہے کہ طے شدہ تین دن کی مدت، پیشکش پر موجود اینٹی بائیوٹکس کی محدود فہرست کے ساتھ، بہت سی خواتین کے لیے کافی نہیں ہے۔

علاج کی محدود مدت کی ایک اہم وجہ اینٹی مائیکروبیئل مزاحمت کے بارے میں تشویش ہے۔ روہن کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے، لیکن اکثر اینٹی مائیکروبیئل کے خدشات کی وجہ سے ان لوگوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اس کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک تضاد یہ ہے کہ یو ٹی آئیز کا ناکافی ابتدائی علاج ان انفیکشنز کو دائمی یا بار بار ہونے کا سبب بن سکتا ہے، جس میں بایوفلمز کے اندر سخت بیکٹیریا چھپے رہتے ہیں۔

ان صورتوں میں، بالآخر، مزید اینٹی بایوٹک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بار بار آنے والے یو ٹی آئیزکے لیے، مریضوں کا علاج اکثر اینٹی بائیوٹکس کے طویل کورسز سے کیا جاتا ہے۔ یہ اینڈریو کے ساتھ ہوا، جو سکون تلاش کرنے سے پہلے سرکاری اور نجی صحت کی دیکھ بھال کے درمیان پھنس کر رہ گئی تھیں۔

بہت سے دوسرے لوگوں کے پاس اتنے وسائل یا تعلیم نہیں ہوتی کہ وہ بہتر دیکھ بھال کی تلاش کر سکیں۔

یو ٹی آئیز
Getty Images
پیشاب کا کلچر ٹیسٹ ہمیشہ قابل اعتماد نہیں ہوتا

تبدیلی کے امکانات

یو ٹی آئیزکی تشخیص اور علاج کو بہتر بنانے کے لیے مختلف کوششیں جاری ہیں۔

اینٹی بائیوٹکس کی اثرات سے ہونے والے نقصان کے جواب میں، محققین موجودہ دوائیوں کو دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا بافتوں میں ان کی رسائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہے۔

پچھلے سال، دوا ساز کمپنی جی ایس کے نے بھی ایک نئی کھانے والی اینٹی بائیوٹک کے آزمائشی نتائج کی اطلاع دی۔ اگر منظوری دی جاتی ہے، تو یہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں غیر پیچیدہ یو ٹی آئیز کے علاج کے لیے تیار کردہ پہلا اقدام ہوگا۔

ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے سپر بگ کے بہت بڑے مسئلے کو دیکھتے ہوئے، اینٹی بائیوٹکس کے متبادل کی بھی ضرورت ہے۔

ہارڈنگ کے بقول مریضوں کو اندام نہانی کے ذیعے دیے جانے والے ایسٹروجن سپلیمنٹس ایک غیر اینٹی بائیوٹک آپشن ہیں، لیکن اس بات کی امید افزا نشانیاں ہیں کہ جراثیم کش ادویات بھی کام کر سکتی ہیں، اور کئی یو ٹی آئیز ویکسین بھی تیار ہو رہی ہیں۔

پیشاب کی نالی کو سمجھنے میں بنیادی تحقیق کا بھی اہم کردار ہے۔

روہن کا کہنا ہے کہ ’چوہوں کے نمونوں نے کئی سالوں تک یو ٹی آئیزتحقیق میں سب سے زیادہ راج کیا ہے، حالانکہ چوہوں کے پیشاب کے افعال انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔‘

انسانوں کے برعکس، چوہے زیادہ دیر تک پیشاب ذخیرہ نہیں کرتے۔ انھیں قدرتی طور پر یو ٹی آئی بھی نہیں ملتا۔

مکمل طور پر چوہوں پر مبنی ماڈلز پر انحصار کرنے کے بجائے، روہن اور ان کے ساتھیوں نے انسانی مثانے کا ایک تھری ڈی ماڈل ڈیزائن کیا جو حقیقی عضو کے پھیلاؤ اور بہاؤ کی نقل کر سکتا ہے اور حقیقی پیشاب کے ساتھ پروگرام کیا جا سکتا ہے۔

روہن کہتی ہیں ’اب ایک ایسے وقت میں ہونا بہت پرجوش ہے جب انسانی ماڈلنگ ایک نشاۃ ثانیہ میں داخل ہو رہی ہے۔‘

اس دوران، یو ٹی آئیزکے بارے میں آگاہی میں اضافہ اور انھیں سنجیدگی سے لینے کی خواہش،ویریمواور اینڈریو جیسی خواتین کی تکالیف کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے، جنھوں نے اپنے جوابات تلاش کرنے کے لیے برسوں جدوجہد کی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.