انڈیا: سرکاری ملازمتوں کے امتحان میں نقل کرنے پر عمر قید کی سزا کا قانون منظور

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ نے ایک قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت مقابلے کے امتحانات میں دھوکہ دہی یا اس کے پرچے لیک کرنے پر مجرم کو عمر قید اور اس میں ملوث تنظیموں کو 10 کروڑ روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

انڈیا میں امتحانات میں دھوکہ دہی کی ایک وباء پھیلی ہوئی ہے اور حالیہ برسوں میں مقابلے کے امتحانات کے پرچے لیک ہونے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

مثال کے طور پر راجستھان میں2018 سے سرکاری ملازمت کی بھرتی کے لئے ہونے والے کم از کم 12 بار ٹیسٹ پیپر لیک ہونے کے بعد امتحانات منسوخ کیے گئے ہیں۔

گجرات میں پیپر لیک ہونے کی وجہ سے 2014 سے لے کر اب تک سکول ٹیچرز اور جونیئر کلرکوں کی بھرتی کم از کم نو بار منسوخ کی گئی ہیں۔ مغربی بنگال میں تو پچھلے سال سوالیہ پرچہ آن لائن شیئر ہوئے تھے۔ دیگر بڑی آبادی والی ریاستوں جیسے بہار اور اتر پردیش میں بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے۔

انڈیا میں بے روزگاری کی شرح اپنے تاریخی سطح پر ہے۔ ایسے حالات میں سرکاری نوکریاں نوجوانوں کے لئے بہت اہم ہو جاتی ہیں۔

اتراکھنڈ کا یہ قدم گزشتہ ہفتے کے شروع میں ریاستی دارالحکومت دہرادون میں ہونے والے سرکاری بھرتی کے ٹیسٹوں میں متعدد بار پیپر لیک اور فراڈکے خلاف احتجاج پرتشدد ہونے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

اسے ابتدائی طور پر ایک آرڈیننس کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جسے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے فوری طور پر منظوری دے دی اور مقامی میڈیا کے مطابق اسے راج بھون (ریاست کے گورنر کی سرکاری رہائش گاہ) کو بھیج دیا گیا، جس نے اسے صرف 24 گھنٹوں میں منظور کر دیا۔

اس قانون کے مطابق اگر کوئی امتحان دینے والا شخص کسی مسابقتی امتحان (آن لائن یا آف لائن) میں دھوکہ دہی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے یا دوسرے امیدوار کو دھوکہ دینے میں مدد دیتا ہے یا غیر منصفانہ طریقوں میں ملوث ہوتا ہے، تو اسے تین سال قید اور کم از کم پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں امتحان دینے والے کو مزید نو ماہ قید بھگتنا ہوگا۔

اگر یہ حرکت دوسری بار ہوئی تو مجرم کو کم از کم 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے مزید 30 ماہ قید بھگتنا ہو گی۔

اگر امتحان کے انعقاد میں ملوث کوئی بھی تنظیم پیپر لیک کرنے کی سازش میں ملوث ہوتی ہے یا دھوکہ دہی میں مدد کرتی ہے تو اس کی سزا عمر قید کے ساتھ ساتھ 10 کروڑ روپے تک کے جرمانے تک ہو سکتی ہے۔

اس قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ دھامی نے کہا، ’ریاست حکومت کی بھرتیوں کے لیے منعقد ہونے والے مسابقتی امتحانات میں دھوکہ دہی اور دھاندلی کو روکنے کے لیے انسداد نقل کا قانون لایا گیا ہے۔ یہ قانون صرف سرکاری بھرتیوں کے لیے ہونے والے مسابقتی امتحانات کے لیے لاگو ہوگا لیکن سکولوں اور ڈگری کالجوں کے امتحانات پر نہیں ہوگا‘۔

https://twitter.com/ANINewsUP/status/1625149022062403588?s=20

وزیر اعلیٰ دھامی نے یہ بھی اشارہ کیا کہ پیپر کا لیک ہونا کوئی سازش ہے اور سوال کیا کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کون تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ انہوں نے کہا ’یہ ہمارے تمام ذہنوں میں ایک سوال ہے اور ہمیں اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی گروپ اس پر کام کر رہا ہے؟ اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ میں اس پر غور کروں گا‘۔

https://twitter.com/ANINewsUP/status/1624687711134285826?s=20

بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے لیکن وہیں سوشل میڈیا صارفین نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ جوشی مٹھ (ریاست کا وہ شہر جو زمین میں دھنس رہا ہے) اور ہلدوانی (جہاں سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے روکا تھا) کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’میڈیا کروک‘ نامی ایک صارف نے کہا، ’جب حکومت ہلدوانی یا جوشی مٹھ جیسے بڑے مسائل کو ہینڈل نہیں کر سکتی تو وہ چھوٹے جرائم کے لیے احمقانہ قانون بنائے گی‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اس قانون کے بعد عصمت دری اور دھوکہ دہی کی سزا کی مقدار اب ایک برابر ہے۔

https://twitter.com/mediacrooks/status/1624946291469074433?s=20

سنجے جھا نے نشاندہی کی کہ طلباء کو سزا دینا، وہ بھی عمر قید، بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’دھوکہ دہی بری چیز ہے اور ناقابل قبول ہے۔ لیکن طلباء کو پیپر لیک اور بھرتی کے گھپلوں کی سزا دینا سرکاری ٹھگی کی بدترین شکل ہے۔ وہ بھی عمر قید؟‘

https://twitter.com/whoskj2/status/1624763993314426880?s=20

محقق جے دیپ پربھو نے کہا، ’یہ تعمیراتی مزدوروں کے لیے روزگار کی سکیم ہے‘۔ جس کا غالبا یہ مطلب ہے کہ انڈیا میں امتحانوں میں دھوکہ دہی عام ہے اور اس قانون کے بعد ایک بڑی تعداد جیلوں میں جائے گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.