ڈی ایچ اے میں تیندوا: پاکستان میں شیر، چیتے اور تیندوے کو بطور پالتو جانور رکھنے پر کیا سزا ہو سکتی ہے؟

گذشتہ روز اسلام آباد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک میں بڑی بلیوں یا جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط کے متعلق ایک بحث نے جنم لیا ہے۔
پالتو جانور
BBC

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی رہائشی سوسائٹی ڈی ایچ اے کے فیز ٹو میں گذشتہ روز داخل ہونے والے ایک تیندوے کو پکڑنے کے لیے کئی گھنٹے جاری رہنے والے آپریشن کے بعد اسے قابو کر کے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمینٹ بورڈ کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔

تیندوے کو ریسکیو کرنے کے بعد اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمینٹ بورڈ کی ڈائریکٹر رینا سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس طرح سے یہ حملہ کر رہا تھا اس سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی جنگلی جانور ہے، ہمیں شبہ ہے کہ یہ پالتو جانور ہے لیکن اس حوالے سے اب تحقیقات کی جائیں گی۔‘

اس ضمن میں پولیس نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد کے تھانہ سہالہ میں نامعلوم ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس کے درج کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ تیندوا کسی نامعلوم شخص نے گھر میں پالا ہوا تھا اور ملزم نے خطرناک جانور رکھ کر شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی تلاش جاری ہے اور اسے جلد گرفتار کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پاکستان کے اکثر شہروں میں پالتو جانور رکھنے کے شوقین افراد نے شیر، چیتے اور تیندوؤں کو بطور پالتو جانور رکھا ہوا ہے اور وہ اکثر عوامی مقامات یا نجی گاڑیوں میں ان کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں۔

شیر
BBC

تاہم پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس کی بنیاد پر بتایا جا سکے کہ پاکستان میں ایسے کتنے جانوروں کو پالتو حیثیت سے رکھا گیا ہے۔

پاکستان اس وقت جنگلی حیات بالخصوص بلی کی نسل سے تعلق رکھنے والے بڑے جانوروں جیسے کہ چیتوں، شیروں، تیندوؤں اور پوما جیسے جانوروں کی بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔

بین الاقوامی ادارے کنزویشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ سپیشیز آف وائلڈ فانا اینڈ فلورا (ساآئیٹز) کے مطابق پاکستان میں 2013 سے لے کر 2018 تک مختلف انواع کے 85 شیر، چیتے، ببر شیر وغیرہ درآمد کیے گئے جبکہ ان کے علاوہ 15 جانور ٹرافی ہنٹنگ کی صورت میں پاکستان آئے ہیں۔

گذشتہ روز اسلام آباد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک میں بڑی بلیوں یا جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط کے متعلق ایک بحث نے جنم لیا ہے۔

ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں بڑی بلیوں یا جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط کیا ہیں اور ان پر کتنا عملدرآمد ہوتا ہے؟

بڑی بلیوں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط

شیر
BBC

اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے 1997 کے آرڈینینس کے تحت مقامی طور پر پائے جانے والے تیندوے یا کسی بھی جانور کو کسی صورت پالتو نہیں رکھا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا تیندوا کل گھروں میں گھسا اس کو کسی بھی فارم میں بھی رکھنے کی اجازت نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے قوانین بڑے واضح ہیں۔ اگر اس کو پکڑا جائے گا، کہیں بھی جنگل، قدرتی نظام کے علاوہ رکھا جائے گا تو یہ غیر قانونی ہو گا۔‘

اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی اہلکار ڈاکٹر امہ حبیبہ کا کہنا تھا کہ وائلڈ لائف آرڈینینس کے تحت اس طرح کے جانوروں کو رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے جس میں وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے مجسٹریٹ انھیں قید اور بھاری جرمانے کی سزا بھی سنا سکتے ہیں۔

ان کے گھر، کار یا دیگر جگہوں کی بنا وارنٹ تلاشی بھی لی جا سکتی ہے جبکہ جرم ثابت ہونے پر کم از کم چھ ماہ سے ایک سال تک کی قید اور ہزاروں روپے کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

جنگلی حیات کے ماہر اور اریڈ یونیورسٹی راولپنڈی میں جنگلی حیات کے سنیئر رچرچ فیلو مطیب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مقامی جنگلی جانوروں کو پالتو رکھنا غیر قانونی ہے اور جنگلی حیات کے آرڈینینس کے تحت وائلڈ لائف مجسٹریٹ غیر قانومی معاملات میں کیس کی نوعیت کے مطابق سزا کا تعین اور اسے مزید سخت کر سکتے ہیں۔

’جرمانے کی مد میں لاکھوں روپے جبکہ ایک سال سے زیادہ ناقابل ضمانت سزا ہو سکتی ہے۔‘

یاد رہے کہ تیندوا پاکستان کا مقامی اور محفوظ قرار دیا گیا جانور ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے علاوہ باقی صوبوں میں بھی اس کو شیڈول تھری میں رکھا گیا ہے جس کی رو سے اس کا شکار کرنا، پالنا اور خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ملک میں مقامی جانوروں یا بڑی بلیوں کو پالتو رکھنے کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جو ملک میں نایاب ہیں یا جو یہاں سے تعلق نہیں رکھتے جیسا کے شیر، بنگال ٹائیگر، چیتا وغیرہ۔

ان کے مطابق کہ ان کی درآمد اور انھیں بطور پالتو جانور رکھنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور جگہ کے قواعد بھی موجود ہیں۔ جن میں ان جانوروں کو رکھنے کی مناسب، قدرتی ماحول سے قریب تر کھلی جگہ، تحفظ اور خوراک کا مناسب بندوبست سمیت دوسرے انسانوں کے تحفظ اور دیگر باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔

’جنگلی حیات بشمول شیر اور چیتوں کو باہر سے منگوانے کے لیے سب سے پہلے وفاقی وزارت ماحولیات سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ماہرین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا اجازت حاصل کرنے کے خواہمشند فرد کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود ہیں یا نہیں جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی وزارت داخلہ کے پاس جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ، وزارتِ ماحولیات کی سفارشات کی روشنی میں اپنی سفارشات تیار کر کے ’سائیٹز‘ کے مقامی افسران کو دیتی ہے جو ان سفارشات کی روشنی میں جانور کی درآمد کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ڈی ایچ اے اسلام آباد میں تیندوا ریسکیو: ’جس طرح یہ حملہ کر رہا تھا شبہ ہے کہ یہ پالتو جانور ہے، تحقیقات کی جائیں گی‘

ایبٹ آباد کے نزدیک تیندوے کی موت: کیا زخمی ہونے والا شخص خود تیندوے کے پاس گیا؟

اسلام آباد کے علاقے سیدپور میں تیندووں کی موجودگی: ’لگتا ہے وہ ہمارے خوف کو انجوائے کر رہے تھے‘

شیر
BBC

البتہ پنجاب اور سندھ وائلڈ لائف کے ذرائع کے مطابق قوانین اس بارے میں خاموش ہیں کہ ان جانوروں کو پالتو کے طور پر کن اصول و ضوابط کے تحت رکھا جا سکتا ہے۔

پنجاب کے ریزرو گیم وارڈن بدر منیر نے اب سے کچھ عرصہ قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ اگر کوئی بھی شخص، ادارہ، سفاری پارک وغیرہ یا لائسنس یافتہ بریڈنگ فارم سے بڑی بلی یا جنگلی حیات کو خریدتا ہے تو اسے چاہیے کہ مذکورہ بریڈنگ فارم سے رسید حاصل کرے کیونکہ وہ اس بات کی سند ہو گی کہ جانور قانونی طور پر حاصل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارکوں، سفاری پارک، چڑیا گھروں کے لیے اپنے اصول و ضوابط موجود ہیں کہ وہ انھیں کن حالات میں رکھیں گے۔ اسی طرح اگر بطور پالتو جانور انھیں خریدتا ہے تو پر بھی یہ قواعد لاگو ہوتے ہیں۔

پاکستان بھر میں اس وقت لائسنس شدہ جنگلی حیات کے رجسٹرڈ اور قانونی فارمز کی تعداد 240 سے زیادہ ہے۔

صوبہ پنجاب کے محکمۂ جنگلی حیات کے مطابق پاکستان بھر میں ایسے سب سے زیادہ فارم پنجاب میں ہیں جن کی تعداد دو سو ہے۔ سندھ میں ایسے فارمز کی تعداد 35 جبکہ صوبہ خیبر پختوںخوا میں ایسے آٹھ فارموں کا اندراج ہے۔

پنجاب اور سندھ میں وائلڈ لائف قوانین کے مطابق بریڈنگ فارمز کی اجازت زیرور گیم فارم، سفاری پارک کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ جہاں پر ان بریڈنگ فارم کے مالک جنگلی حیات کی بریڈنگ، خرید و فروخت، شکار اور تبادلہ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی طور پر جنگلی حیات کے کاروبار پر پابندی ہے مگر خطے کے شکار جنگلی حیات کی نسلوں کو تحفظ دینے اور مختلف ممالک میں ان کی بریڈنگ کے لیے ’سائیٹز‘ مقامی حکومتوں کی مشاورت سے ان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دیتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.