ظل شاہ پر شرمناک تشدد ۔۔ پنجاب پولیس بے گناہوں کو کیسے قتل کرتی ہے؟

image

ظل شاہ کے نازک اعضا پر بھی تشدد کرکے ظلم کی شرمناک داستان لکھی گئی، ذہنی مریض اعجاز احمد کو مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا، وکیل خالد حمید کو ان کاؤنٹر کے نام پر قتل کردیا گیا، تاجر ذیشان جاوید کو دہشت گرد بناکر زندگی سے محروم کردیا، عامر مسیح کو قتل کرکے دہشت گرد قرار دیدیا، صحافی مظہر علی کی زندگی چھین لی۔

پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی المناک موت کا ذمہ دار کون، کیسے ایک کارکن کو بہیمانہ تشدد سے موت کے گھاٹ اتارا گیا، پنجاب پولیس گزشتہ چند سالوں میں کیسے بے گناہوں کی زندگیاں چھین رہی ہے۔اس رپورٹ میں ہم آپ کو بتائینگے۔

پولیس کا کام آپ کی حفاظت کرنا ہے لیکن سانحہ ساہیوال ہو یا ماڈل ٹاؤن کا قتل عام، پاکستان کی تاریخ پولیس کے ان شرمناک کارناموں سے بھری پڑی ہے۔

کوئی شریف النفس انسان کتنے ہی نقصان پرتھانے جانے کے بجائے آنسو بہا کر خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ آپ جائینگے مال مسروقہ کی رپورٹ درج کروانے لیکن پولیس کے قابل جوان آ پکےپاس موجود چونیاں (سکے) تک نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آپ کا اپنا ہی مقدمہ آپ کے خلاف بھی چل سکتا ہے اور یہ کمال صرف ملک خداداد پاکستان میں ہی ممکن ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکن ظل شاہ کو کیوں گرفتار کیا گیا اور ایسا تشدد کہ موت واقع ہوگئی، اس کے بارے میں جاننے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ ہماری پولیس کی شہرت اس حوالے سے کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔

آپ کو کسی بھی زمین پر قبضہ کرنا ہے تو اس کیلئے قانون کے محافظ آپ کو بھرپور تحفظ فراہم کرینگے ، آپ کو سڑک پر ٹھیلا کھڑا کرنا ہے یا پتھارا لگانا ہے تو بھی قانون آپ کی ہر طرح مدد کیلئے تیار ہے، آپ کو منشیات فروخت کرنی ہے یا جوئے کا اڈا چلانا ہے تو بھی قانون آپ کی مدد سے کبھی نہیں چوکے گا۔غیر قانونی اسلحہ چاہیے یا کسی کو قتل کرکے آزاد رہنا چاہتے ہیں تو بھی قانون کی خدمات آپ کیلئے حاضر ہیں۔

پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں ، گاؤں دیہات دیکھ لیں کہیں بھی پولیس آپکو اپنا کام کرتی دکھائی نہیں دیگی بلکہ ملک میں ایک تاثر عام ہے کہ پاکستانی پولیس کو دیکھ کر تحفظ سے زیادہ لٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

جنوری 2021 میں، پنجاب پولیس نے لاہور میں ایک طالب علم صلاح الدین ایوبی کو دہشت گرد ہونے کے شبہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ تاہم، اس کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ بے قصور تھا اور اس کا کسی شدت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اگست 2020 میں ذیشان بٹ کو لاہور میں پولیس کی حراست میں قتل کر دیا گیا۔ اسے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ اسے پولیس نے تشدد کر کے ہلاک کیا تھا۔

جون 2020 میں لاہور میں ایک ذہنی مریض اعجاز احمد کو پنجاب پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک مطلوب مجرم تھا تاہم اس کے اہل خانہ نے ان الزامات کی تردید کی اور اس کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مئی 2020 میں، دو افراد صلاح الدین اور شبیر کو پنجاب پولیس نے گوجرانوالہ میں قتل کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ڈاکو تھے اور ایک مقابلے میں مارے گئےتاہم اس حوالے سے حقائق سامنے نہیں آئے۔

نومبر 2019 میں آصف سجاد کو پنجاب پولیس نے لاہور میں قتل کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دہشت گرد تھا اور اسے ایک مقابلے میں مارا گیا تھا، تاہم اس کے اہل خانہ نے ان الزامات کی تردید کی اور اس کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

جولائی 2019 میں ایک وکیل خالد حمید کو پنجاب پولیس نے ڈسکہ میں قتل کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اسے ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے، لیکن اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصور تھا اور اسے بغیر کسی وجہ کے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

جون 2019 میں لاہور میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں ایک تاجر ذیشان جاوید کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دہشت گرد تھا اور اسے ایک مقابلے میں مارا گیا تھا، تاہم اس کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ بے قصور تھا اور اس کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مئی 2019 میں ذیشان علی کو پنجاب پولیس نے لاہور میں قتل کر دیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ڈاکو تھا اور اسے مقابلے میں مارا گیا تھا، تاہم اس کے اہل خانہ کا دعویٰ تھا کہ وہ بے قصور تھا اور اسے بغیر کسی وجہ کے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

اپریل 2019 میں لاہور میں ایک مسیحی شخص عامر مسیح کو پنجاب پولیس نے قتل کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک دہشت گرد تھا اور اسے ایک مقابلے میں مارا گیا تھا، تاہم اس کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ بے قصور تھا اور اس کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مارچ 2019 میں سمبڑیال میں صحافی مظہر علی کو پنجاب پولیس نے قتل کر دیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اسے ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے، لیکن اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصور تھا اور اسے بغیر کسی وجہ کے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

یہ تو محض چند واقعات ہیں لیکن اگر آپ کو یاد ہو تو 2019 میں ساہیوال میں اسی پنجاب پولیس نے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جبکہ 2014 کا سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پولیس کیلئے ایک شرمناک اعزاز ہے۔

اب اگر ہم ظل شاہ کی بات کریں تو ان کی ہلاکت کے بارے میں تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجاب پولیس کے تشدد سے مارے گئے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے مطابق علی بلال کو پنجاب پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں زمان پارک کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔

علی بلال عرف ظل شاہ کی تفصیلی پوسٹمارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ظل شاہ کے نازک اعضا پر بھی تشدد کیا گیا۔ ظل شاہ کی موت دماغ میں گہری ضرب آنے کے بعد خون زیادہ بہنےسے ہوئی۔ مقتول کے جگر اور لبلبہ میں خون جمع ہونا بھی موت کی وجہ بنا، دماغ میں خون جمع ہونے سے بلڈ پریشر انتہائی کم ہو گیا تھا، ظل شاہ کی کھوپڑی کا ایک حصہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا تھا۔ پنجاب پولیس عمران خان کے دعوؤں کو مسترد کرتی ہے اور پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف درج کرلیا ہے۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.