رمضان میں بڑے شہروں میں بھکاری کہاں سے آتے ہیں؟، منشیات اور دیگر برائیوں کی طرح کیا بھکاریوں کو بھی مافیا کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، ایک پیشہ ور بھکاری کی ایک دن کی کمائی کتنی ہوتی ہے؟، بھکاریوں کے پاس کون کون سی سہولیات ہوتی ہیں؟، سب سے مہنگا بھکاری کون ہوتا ہے؟۔ پاکستان میں گدا گری بھی ایک اہم پیشہ بن چکا ہے اور ایک پیشہ ور بھکاری دن میں کتنے پیسے کماتا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بھکاریوں کے غول نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ آپ کسی بازار میں ہوں یا ٹریفک سگنل پر کھڑے ہوں یہاں پیشہ ور بھکاریوں سے آپ کا واسطہ ضرور پڑتاہے۔ انتہائی خستہ حالت اور جذباتی جملوں سے آپ سے پیسے اینٹھنے والے ان گداگروں کی اصلیت آپ کے سامنے آجائے تو اپنی سخاوت اور ان جعلسازوں کے ہاتھوں بیوقوف بنے پر آپ کے ہوش اڑ جائینگے۔
جگہ جگہ لوگوں کو مجبوریوں کے قصے سناکر اور اپنی فرضی چوٹیں دکھا کر بیوقوف بناکر پیسے اینٹھنے والے یہ بھکاری ضرورت مند نہیں بلکہ پیشہ ور گداگر ہوتے ہیں۔ ان بھکاریوں کو باقاعدہ بھیک مانگنے کی تربیت دی جاتی ہے اور یہاں جو جتنی بری اور خستہ حالت میں ہوگا اس کا دام بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی ظاہری حالت کو دیکھ کر لوگ ترس کھاکر زیادہ پیسے دیتے ہیں۔
رمضان میں بچوں، بوڑھوں اور بیمار نظر آنے والے بھکاریوں کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے اور ٹھیکیدار ان بھکاریوں کی منہ مانگی قیمت دیتے ہیں۔ رمضان اور عید تہوار کے موقع پر یہ پیشہ ور بھکاری ملک کے مختلف گاؤں دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔یہ بھکاری شہروں میں موجود کچی آبادیوں، پل اور ندی کناروں پر اپنے پڑاؤ ڈال کر بسیرہ کرتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گداگری میں بچوں کو خاص اہمیت خاصل ہوتی ہے کیونکہ لوگ بچوں کو دیکھ کرزیادہ ترس کھاتے ہیں۔ جن بھکاریوں کے اپنے بچے ہوتے ہیں ان کی تو کمائی ڈبل ہوجاتی ہے۔
اکثر پیشہ ور بھکاریوں کے پاس نظر آنے والے بچے ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ یہ بچے کرائے پر بھی دستیاب ہوتے ہیں اور اس مقصد کیلئے ملک کے مختلف علاقوں سے بچوں کو اغواء بھی کیا جاتا ہے۔
جس طرح کوئی دکاندار اپنی اشیاء کو سجا کر خریداروں کو راغب کرتا ہے اسی طرح یہ پیشہ ور بھکاری دردناک چوٹیں، معذوری اور زخم دکھا کر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دردناک چوٹیں، معذوری اور زخم سب فرضی ہوتے ہیں۔جسم پر اکثر پٹیاں باندھ کر اوپر پائیوڈین ڈال دیا جاتا ہے یا مختلف طریقوں سے فرضی چوٹیں اور رپورٹس دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
ان پیشہ ور بھکاریوں کی اوسط یومیہ آمدن 2 سے 3 ہزار جبکہ عیدوں اور مذہبی تہواروں پر 5 ہزار کے قریب لیکن رمضان میں یہ کمائی 10 ہزار سے زیادہ بھی ہوتی ہے۔ایک عام بھکاری ماہانہ 60 سے 70 جبکہ بیمار، معذور اور بدحال نظر آنے والا بھکاری ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک کماتا ہے۔
ان بھکاریوں کے گھروں میں اگر آپ جائیں تو حیرت کے مارے آپ کی آنکھیں کھلی رہ جائینگی۔ٹی وی، فریج اور اے سی کے علاوہ دنیا کی ہر سہولت اور آسائش ان بھکاری کے کو دستیاب ہوتی ہے۔جس طرح آپ صبح سویرے تیار ہوکر نوکری کیلئے نکلتے ہیں اسی طرح یہ بھکاری بھی سورج نکلتے ہی بن ٹھن کر شکار پر نکل جاتے ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جس طرح اکثر دکاندار لوگوں کو راغب کرنے کیلئے آواز لگاتے ہیں اسی طرح ان پیشہ ور بھکاریوں نے آج کل اسپیکر پر اعلان کرکے مانگنے کا طریقہ نکال لیا۔
جس طرح کسی بھی کاروبار کیلئے جگہ باقاعدہ الاٹ کروائی جاتی ہے اور اس کارورباری افراد کی یونین ہوتی ہے یہاں مختلف بااثر افراد اس کام کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کی اپنی یونین بھی ہوتی ہے جو باقاعدہ اس مذموم کام میں ملوث لوگوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
بھیک مانگنے کیلئے علاقوں اور مختلف مقامات کی بولیاں لگتی ہیں اور بولی جیتنے والا ٹھیکیدار اپنے بھکاریوں کو وہاں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ان گداگروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور ٹھیکیداروں کے نمائندے ان پر نظر رکھتے ہیں۔
یہاں پولیس اور شہری انتظامیہ بھی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتی اور یہ گداگر کسی دوسرے کو اپنی حدود میں بھیک مانگنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے ۔زبردستی دوسرے کی جگہ بھیک مانگنے والے کے ساتھ مارپیٹ اور جھگڑے کے واقعات بھی عام ہیں۔
شہریوں کیلئے حقیقی ضرورت مند اور پیشہ ور بھکاری میں فرق کرنا بہت مشکل امر ہوتا ہے ۔اگر آپ اس رمضان اپنی بساط کے مطابق کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ پہلے اپنے بہن بھائیوں، پڑوسیوں اور آس پاس موجود حقیقی ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں۔
اگر آپ کو پھر بھی کوئی حقیقی ضرورت مند دکھائی نہیں دیتا تو انسانیت کی خدمت کرنے والے اداروں کو اپنی خیرات دیں۔ اس رمضان یہ طے کرلیں کہ آپ کسی پیشہ ور بھکاری کو پیسے نہیں دینگے کیونکہ ان پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی سے معاشرے سے اس بڑھتی ہوئی وباء کو ختم کیا جاسکتا ہے۔