پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان دنوں اقبال مسیح نامی ایک بچے کے حوالے سے خبریں زیر گردش ہیں اور اقبال مسیح کی قربانی اور لاوازل کردار کو صارفین نے خوب سراہا ہے۔
آیئے آپ کو اس دس سالہ گمنام ہیرو اقبال مسیح کے بارے میں بتاتے ہیں، اقبال مسیح 1983ء میں ضلع گوجرانوالہ کے نواحی علاقے مرید کے میں پیدا ہوا۔ اقبال مسیح کی والدہ ایک کارپٹ فیکٹری میں ملازمہ تھی۔
جب اقبال چار سال کا تھا تو فیکٹری کے مالک نے زبردستی اسے والدہ کی جگہ کام پہ لگا دیا کیونکہ اقبال کی والدہ نے چھ سو روپے قرض لیا تھا جو وہ بیماری کے باعث ادا نہ کر پائی اور بدلےمیں اقبال کو فیکٹری مالک کے حوالےکرنا پڑا۔
چونکہ فیکٹری مالک صرف ایک وقت کا کھانا دیتا تھا اور پورا ہفتہ روزانہ 14 گھنٹے کام کرواتا تھا اس لئے اقبال 1990 کو غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا لیکن فیکٹری مالک نے پولیس کو رشوت دے کر جلد ہی اسے گرفتار کروادیا اور کچھ دن قید میں پولیس کے ہاتھوں تشدد کے بعد اسے دوبارہ فیکٹری میں کام کے لیے قید کردیا گیا۔
اقبال مسیح دوبارہ فرار ہوا اور اس نے اس مرتبہ اپنے ساتھ لاہور کے تین ہزار بچوں کو بھی قید سے آزاد کیا۔ اقبال مسیح نے 10 سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی۔
اقبال ایک لیڈر بن چکا تھا۔ ایک دس سالہ لیڈر جس نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں، بھٹوں سے ہزاروں بچوں کو آزاد کیا لیکن اس ننھے ہیروں کو 1995 میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اقبال مسیح کو پوری دنیا میں اعزازات سے نوازا گیا۔
اطلاعات کے مطابق کینیڈا میں آج بھی اقبال مسیح کے نام سے چلڈرن رائٹس فنڈ ایشو ہوتا ہے۔ 1994 میں ریبوک چائلڈ ہیرو کا ایوارڈ بھی اقبال کہ حصہ میں آیالیکن کچھ نہ ملا تو وہ اسے اس کہ ملک سے نہ ملا، پاکستام میں زیادہ تر لوگ اقبال مسیح کو جانتے ہی نہیں اور نہ ہی نام سنا ہوگا۔
دنیا کو خبر ہوئی تو اقبال، جو گیارہ سال کی عمر میں بھی چار فٹ سے کم قد کا تھا، اسکی دھوم مچ گئی۔ اسے عالمی ری بک یوتھ ان ایکشن ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے تحت سالانہ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کی تعلیمی اسکالر شپ دی گئی جبکہ برینڈیز یونیورسٹی نے اقبال کو کالج کی عمر تک پہنچنےپر مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اس مجاہد کو پہلے سویڈن اور اس کے بعد امریکا میں اسکول کے بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے بلایا جہاں مقامی ا سکولوں کے طالب علموں نے اپنے جیب خرچ سے ایک فنڈ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں بچوں کے کئی اسکول چلا رہا ہے۔
1995 میں اقبال امریکا سے واپس اپنے گاؤں رکھ باؤلی پہنچا تو 16 اپریل کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے اس معصوم بچے کی زندگی ختم کر دی۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کو اسی شخص نے مار ڈالا تھا جس کے پاس وہ بچپن میں کام کرتا تھا۔
اقبال کی موت کے بعد مقامی نوجوانوں نے کینیڈا میںفری دی چلڈرن نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جبکہ اقبال مسیح شہید چلڈرن فاؤنڈیشن کا بھی آغاز کیا گیا جو جبری مزدوری کرنے والے بچوں کو علم کی روشنی کی طرف لانے کے لیے کام کرتی ہے۔