بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں تروپتی سے 50 کلومیٹر دور پکالا منڈل کے علاقے میں 25 مکانات اور 80 افراد پر مشتمل ویمانا اندلو کا نامی گاؤں میں ہر کوئی ننگے پاؤں رہتا ہے، کوئی جوتا نہیں پہنتا۔ یہاں تک کہ اگر انھیں گاؤں سے باہر بھی جانا ہو تو وہ ننگے پاؤں ہی جاتے ہیں۔
یہاں رہنے والوں میں سے صرف چند ایک نے اپنی گریجویشن مکمل کی ہے باقی سب زیادہ پڑھے لکھے نہیں ۔ یہ لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ گاؤں میں ان سے ملنے آنے والے رشتہ داروں کو بھی ان رسم و رواج پر عمل کرنا پڑتا ہے جبکہ گاؤں میں کوئی بیمار ہو جائے تو وہ ہسپتال نہیں جاتا، اگر انھیں کہیں باہر جانا پڑے یا کسی رشتہ دار کے گھر جانا پڑے تو وہ اپنے گھر سے باہر کا نہ کھانا کھاتے ہیں نہ ہی پانی پیتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں آپ جوتے نہیں پہن سکتے، یہاں کے باسی آپ کا کھانا نہیں کھاتے، اس طرح کے بہت سے رواج یہاں پائے جاتے ہیں۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگر ضلع مجسٹریٹ کو بھی گاؤں میں داخل ہونا پڑے تو انھیں بھی گاؤں کے باہر اپنے جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ گاؤں کے سربراہ اربابہ کا کہنا ہے کہ جب سے ہمارا قبیلہ اس گاؤں میں آباد ہوا ہے تب سے یہ رواج ہے۔
’جب ہم گاؤں سے باہر جاتے ہیں تو نہانے کے بعد ہی گھر میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں اور پھر کھانا کھاتے ہیں۔ میں کئی بار گاؤں سے باہر جا چکا ہوں۔ ایک بار مجھے عدالتی کام کی وجہ سے پانچ دن گاؤں سے باہر رہنا پڑا۔ میں نے اس دوران جہاں ٹھہرا تھا وہاں کے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘
گاؤں کے لوگوں خود کو پالو یکاری ذات سے تعلق رکھنے والا کہتے ہیں اور خود کو ڈوراورلو کا نام دیتے ہیں۔آندھرا پردیش میں ان کو پسماندہ طبقے کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، اس گاؤں کے تمام لوگ ایک ہی نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اس گاؤں سے باہر صرف اپنی ذات والے لوگوں سے تعلق داری بناتے ہیں۔
گاؤں کے سربراہ ایربا بتاتے ہیں کہ اگر کوئی سانپ ہمیں کاٹ لے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارا خدا ہی اسے شفا دے گا۔ ہم کسی ہسپتال نہیں جاتے۔ ہم سانپ کی پہاڑی کا طواف کرتے ہیں۔ ہم نیم کے درخت کا طواف کرتے ہیں۔ ہم ہسپتال نہیں جاتے بلکہ ہمارا خدا ہی ہمیں شفا دیتا ہے۔