ڈاکٹر سیمی جمالی جو خود دوسروں کی موت کی تصدیق کیا کرتی تھیں، کل ان کی موت کی تصدیق کے بعد ہر آنکھ عشکبار ہے۔ آئرن لیڈی آف پاکستان جو خود چھپکلیوں سے ڈرتی تھیں لیکن زندگی کے 33 سال لاشوں میں گزار دیے۔ ان کی والدہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن شادی ہوگئی اور پھر بچے ہوئے تو وہ اپنا خواب پورا نہ کرسکیں لیکن والدہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے بیٹیوں نے جان توڑ محنت کی۔ ڈاکٹر سیمی جمالی نے اس شعبہ میں خوب نام کمایا۔ دوسروں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر سیمی آنتوں کے کینسر میں کئی سال سے مبتلا تھیں ان کے لیے کیموتھراپی ایک خؤفزدہ عمل تھا۔ وہ بہت عرصے سے کیموتھراپی کروا رہی تھیں۔
کینسر سے لڑتے لڑتے ڈاکٹر سیمی جمالی کراچی میں وفات پا گئیں، وہ جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ اور بعد میں اسی ہسپتال کی ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئیں، وہ ان ڈاکٹروں میں سے تھیں جنھوں نے زندگی میں کبھی پرائیوٹ پریکٹس نہیں کی۔
سیمی جمالی نے اپنے کیریئر کے 33 سال اس لڑائی میں گزارے، انھوں نے پاکستان کے اس ہسپتال میں بم دھماکوں، خودکش بم حملوں، ٹارگٹ کلنگز، ہوائی حادثات سمیت تمام بڑے حادثات و واقعات کا سامنا کیا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی تھیں کہ میں تو چھپکلی سے ڈرتی تھی مگر بعد کی زندگی میں 33 برس لاشوں اور زخمیوں میں کھڑی رہی۔
سیمی جمالی نے نوابشاہ میں پیپلز میڈیکل کالج سے 1986 میں ایم بی بی ایس کیا جس کے بعد انھوں نے کراچی سول ہسپتال میں ہاؤس جاب کی۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کو نومبر 2020 میں آنتوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کے باوجود انھوں نے اپنی ملازمت جاری رکھی، انہوں نے بتایا کہ ان میں خون کی کمی تھی اس کے لیے آئرن لے لیتی تھیں تاہم ان کے پیٹ میں درد رہتا تھا لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
ڈاکٹر سیمی جمالی کو ڈبلیو ایچ او نے کووڈ کے دوران خدمت پر گلوبل ہیرو کا ایوراڈ دیا۔ حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے وسیم بادامی سے بات کرتے ہوئے کچھ وقت قبل کہا تھا کہ مرنا تو سب کو ہے یہ تو یقینی ہے لیکن جب جس کی موت آ جائے اس پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ میں چاہتی ہوں مرتے وقت کلمہ میری زبان پر ہو، شہید کی موت تو پھر سب سے زیادہ عظیم ہے لیکن میں آناً فاناً مرنا چاہتی ہوں۔ مجھے پتہ ہے اب وقت کم ہے یہ احساس انسان کو ہو جاتا ہے۔