’اثرات تباہ کُن ہو سکتے ہیں‘، یوکرین میں بمباری سے بڑا ڈیم تباہ

image
یوکرین نے الزام عائد کیا ہے کہ روس کی افواج نے ایک بڑے ڈیم کو تباہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نشیبی آبادی کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کو یوکرینی حکام نے بتایا کہ روس کے زیرِقبضہ جنوبی یوکرین کے ایک بڑے ڈیم اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

یوکرین کے حکام نے ڈیم ٹوٹنے سے خطرے میں آنے والی آبادی کو فوری علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا ہے۔

دوسری جانب روسی حکام نے کہا ہے کہ کاخووکا ڈیم کو یوکرین کی فوج نے حملے میں تباہ کیا ہے۔

ڈیم ٹوٹنے سے کئی اثرات ہو سکتے ہیں جن میں گھروں، گلیوں اور کاروبار کا زیرِآب آنا، زیرزمین پانی کی سطح گرنا، یورپ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے میں مشکلات کے علاوہ روس کے زیرِکنٹرول کریمیا میں پینے کے پانی کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کو 16 ماہ گزر چکے ہیں اور ڈیم کی تباہی سے اب یہ جنگ ایک نئے اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔

روس سے قبضہ چھڑانے کے لیے یوکرین کی افواج جوابی حملے کر رہی ہیں اور ملک کے مشرق اور جنوب میں جنگی محاذ پر ایک ہزار کلومیٹر کے علاقے میں جنگی کارروائی پھیل گئی ہے۔

یوکرین کے نیوکلیئر محکمے ’انرگوایٹم‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈیم ٹوٹنے کے ’ژاپوریژیا ایٹمی پاور پلانٹ پر منفی اثرات ہوں گے تاہم اس وقت صورتحال قابو میں ہے۔‘

اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی نے ٹویٹ کیا ہے کہ اُس کے ماہرین یوکرین کے پاور پلانٹ میں صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ’فوری طور پر کسی خطرے کی بات نہیں۔‘

ڈیم ٹوٹنے سے نشیبی علاقوں کی آبادی کو خطرے لاحق ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جنگ کے ماحول پر اثرات کا جائزہ لینے والے ورکنگ گروپ کے مطابق ڈیم سے پانی کا مکمل اخراج ہونے پر نیوکلیئر پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مشکل کا سامنا ہوگا جبکہ شمالی کریمیا میں پینے کے پانی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

یوکرین کے صدر کے مشیر میخیلو پودولیاک نے کہا ہے کہ ’عالمی حیاتیات کی تباہی اب کھل گئی ہے، اگلے چند گھنٹوں میں ہزاروں جانور مر جائیں گے اور ایکوسسٹم تباہ ہو گا۔‘


News Source   News Source Text

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts