انڈیا میں ہندو طالبات کے حجاب اوڑھنے اور مبینہ تبدیلیِ مذہب کے تنازع کی حقیقت کیا ہے؟

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دموہ نامی شہر کے ’گنگا جمنا ہائر سیکنڈری سکول‘ میں مبینہ ’تبدیلیِ مذہب ‘ کے تنازع میں پولیس نے سکول انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
علامتی تصویر
Getty Images

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے دموہ نامی شہر کے ’گنگا جمنا ہائر سیکنڈری سکول‘ میں مبینہ ’تبدیلیِ مذہب ‘ کے تنازع میں پولیس نے سکول انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

اس کے علاوہ، ریاستی حکومت اس سکول میں زیر تعلیم تقریباً 1,200 طلبا کو شہر کے دوسرے سکولوں میں داخل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سکول کی انتظامیہ کے خلاف سامنے آنے والے الزامات کے بعد قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے اور حقائق سامنے آنے پر ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں۔‘

ریاستی حکومت نے ’گنگا جمنا ہائیر سیکنڈری سکول‘ کی رجسٹریشن بھی معطل کر دی ہے اور معاملے کی تفتیش کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔

تنازع ہے کیا؟

گذشتہ دنوں دسویں کلاس کے بورڈ کے امتحانات کے نتائج کے اعلان کے بعد اس سکول کی انتظامیہ کی جانب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبا کی تصاویر والا ایک پوسٹر لگایا گیا۔ اس پوسٹر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سکول کے 98.5 فیصد طلبا نے بورڈ کا امتحان پاس کیا ہے۔

لیکن اس تصویر کو دیکھتے ہیں ایک تنازع کھڑا ہو گیا کہ اس پوسٹر میں کچھ ہندو طالبات نے حجاب پہن رکھا تھا۔ کئی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی اور سکول انتظامیہ پر ’جبری تبدیلیِ مدہب‘ کا الزام عائد کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنماؤں سمیت کچھ تنظیموں نے الزام لگایا کہ سکول میں پڑھنے والی طالبات کو ’کلمہ‘ سکھایا جا رہا ہے اور ہندو لڑکیوں کو ’زبردستی حجاب پہنایا جا رہا ہے۔‘

یہ الزامات سامنے آنے کے بعد ریاستی حکومت نے ضلعی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر وی ڈی شرما نے الزام لگایا کہ گنگا جمنا سکول میں ہندو طالبات کو ’دباؤ ڈال کر‘ حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سکول کی آڑ میں لو جہاد اور جہادی سلطنت قائم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے۔‘

30 مئی کو اس تنازع پر ٹویٹ کرتے ہوئے اس علاقے کے کلکٹر میانک اگروال نے لکھا ’گنگا جمنا سکول کے پوسٹر کے حوالے سے کچھ لوگوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی معلومات کو سٹیشن انچارج کوتوالی اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے حقائقکے منافی پایا ہے اور اس ضمن میں انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔‘

اسی ٹویٹ کے جواب میں علاقے کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راکیش سنگھ نے لکھا کہ ’تفتیش میں الزامات ثابت نہیں ہوئے۔‘

رزلٹ
BBC

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پر سیاہی پھینک دی گئی

انتظامیہ کو پیش کی جانے والی رپورٹ کی وجہ سے کئی تنظیمیں دموہ کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایس کے مشرا سے ناراض ہو گئیں۔

گذشتہ دنوں یعنی 6 جون کو جب وہ اپنے دفتر سے نکل رہے تھے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ کارکنوں نے اُن پر سیاہی پھینک دی۔

اس واقعے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ضلعی صدر پریتم سنگھ لودھی اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث تین مقامی رہنماؤں کو ’اظہار وجوہ‘ کے نوٹس جاری کیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بی جے پی ایسے واقعات کی حمایت نہیں کرتی ہے۔‘

پولیس نے سیاہی پھینکنے کے واقعے میں دموہ کے بی جے پی کے نائب صدر امیت بجاج اور دو دیگر کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ پر وزیر برہم

ریاست میں تعلیم کے وزیر اندر سنگھ پرمار نے دموہ ضلع انتظامیہ کی رپورٹ پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

ضلعی کلکٹر کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سکول انتظامیہ کو کلین چٹ دینے کے بجائے انتظامیہ کو سکول کے خلاف لگائے گئے الزامات کی صحیح اور اچھی طرح سے جانچ کرنی چاہیے تھی۔‘

اندر سنگھ پرمار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ضلعی ایجوکیشن آفیسر نے واقعے کی تحقیقات کرنے کے بعد سکول کے بارے میں غلط حقائق پیش کیے۔ اسے وقتاً فوقتاً سکول کا معائنہ کرنا چاہیے تھا۔ ہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے خلاف کارروائی کی سفارش کر رہے ہیں۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

وزیراعلیٰ کا سخت موقف

وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بھی اس واقعے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ پورے معاملے کی تحقیقات کی ہدایات دی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اس سلسلے میں ریاست کے چیف سیکریٹری اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سے بات کی۔

بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ’دموہ کے گنگا جمنا سکول سے سامنے آنے والے معاملے کی اعلیٰ سطحی انکوائری کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ مدھیہ پردیش کی سرزمین پر کوئی بھی کسی بھی بیٹی یا بچے کو حجاب یا مختلف لباس پہننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہم سخت ترین کارروائی کریں گے۔‘

وزیر اعلیٰ نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’ریاست کے کچھ علاقوں میں تبدیلیِ مذہب کا عمل جاری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم انھیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے پوری ریاست میں تحقیقات کی ہدایات دی ہیں۔۔۔ اگر تعلیم بھی غلط طریقے سے دی جا رہی ہے تو ہم اسے بھی چیک کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں ‘حقیقی انڈین ہونے کے لیے ہندو ہونا لازمی ہے‘

انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ’نفرت پر مبنی جرائم‘ کے واقعات: کیا انڈیا میں مسلمان خوف اور بے بسی کے دور سے گزر رہے ہیں؟

انڈیا میں بین المذاہب شادیاں اور ’لو جہاد‘: ’آپ کی بیٹی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے جا رہی ہے، اس بارے میں معلوم کریں‘

وزیر اعلیٰ کی ہدایات کے بعد دموہ پولیس دوبارہ حرکت میں آ گئی ہے اور دو خواتین کے بیانات کی بنیاد پر سکول انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

سکول انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

سنہ 2010سے یہ سکول ایک غیر سرکاری تنظیم ’گنگا جمنا ویلفیئر سوسائٹی‘ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، جس کے سربراہ محمد ادریس ہیں۔

بڑھتے ہوئے تنازع کو دیکھ کر انھوں نے کچھ صحافیوں کو بلا کر وضاحت کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا کہ کسی بھی طالب علم پر زبردستی کوئی اصول نہیں لگایا گیا ہے۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سکول یونیفارم میں ایک انتظام کیا گیا تھا کہ طالبات رضاکارانہ طور پر ’حجاب‘ یا اسکارف پہن سکتی ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں تحریری معلومات بھی ضلع کلکٹر کو سونپی ہے۔

لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنما امیت بجاج کا الزام ہے کہ اگر لڑکے ہاتھ پر کلاوا (سرخ اور پیلا دھاگہ جو ہندو کلائی پر باندھتے ہیں) باندھ کر سکول جاتے ہیں تو اساتذہ اسے زبردستی اتار دیتے ہیں۔

بجاج نے الزام لگایا کہ سکول میں تین خواتین ٹیچر ہیں جو پہلے ہندو تھیں اور بعد میں اسلام قبول کر گئیں۔ ان تینوں خواتین نے ضلع کے کلکٹر سے ملاقات کی اور تحریری طور پر بتایا کہ انھوں نے ’رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل‘ کیا ہے۔

اگرچہ اس معاملے کی تفتیش مختلف سطحوں پر جاری ہے لیکن ’گنگا جمنا ویلفیئر ٹرسٹ‘ کے بارے میں مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ صرف تعلیم تک محدود نہیں ہے۔ یہ پیٹرول پمپ، گودام، دالوں کی ملز اور کپڑوں کے شو روم وغیرہ بھی چلاتا ہے۔ فی الحال یہ سب زیر تفتیش ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.