اپوزیشن کی عدم موجودگی میں روکھی بجٹ تقریر، ڈار تالیوں کو ترس گئے

image
پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اگرچہ بجٹ میں ملک کے تمام سیکٹرز کا احاطہ کیا جاتا ہے، لیکن اس مرتبہ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ ہونے کے باعث سب سے زیادہ توجہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، عوام کے لیے ریلیف اور نوجوانوں کے لیے اقدامات پر ہی تھی۔ 

بجٹ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس میں گہما گہمی تو ہوتی ہی ہے، لیکن اب کی بار شاہراہ دستور پر سرکاری ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے یہ گہما گہمی پورے ریڈ زون میں محسوس کی جا سکتی تھی۔ ایوان کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اگرچہ اپوزیشن کا وجود نہیں ہے مگر سرکاری ملازمین کے احتجاج کا اثر بہرحال دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا تھا۔  

اجلاس سے قبل جب بجٹ دستاویزات پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہوئیں تو وہاں موجود صحافیوں نے ان کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ ایک صحافی نے جملہ کسا کہ ’مہنگائی بم پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا ہے۔‘  

بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت کمیٹی روم نمبر دو میں ہونا تھا جس کے لیے بم ڈسپوزل سکواڈ نے پہلے کمیٹی روم اور بعد ازاں بکسوں میں بند آنے والی دستاویز کو مشینوں کے ذریعے کلیئر کیا۔  

جب دستاویزات کی سکیورٹی کلیئرنس ہو رہی تھی تو میرے ساتھ کھڑے صحافی نے کہا کہ ’بم ڈسپوزل سکواڈ والے کی مشین یا خراب یا پھر ناکارہ ہے۔‘ ان سے پوچھا وہ کیسے تو صحافی نے جواب دیا کہ ’یہ مہنگائی بم کو ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔‘  

وزیراعظم اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو صحافیوں کی جانب سے بجٹ سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’قوم دعا اور صبر کرے کہ ہم اچھا بجٹ اور زیادہ سے زیادہ ریلیف دے سکیں۔‘

بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس کو ایک رسم ہی سمجھا جاتا ہے جس میں وزیر خزانہ یا وزارت خزانہ کے حکام کابینہ کو مختصر بریفنگ دیتے ہیں اور کابینہ بجٹ کی منظوری دے دیتی ہے۔ جس کے بعد وزیر اعظم فنانس بل پر دستخط کرتے ہیں۔ یہ اجلاس عموماً آدھے پونے گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے، لیکن جمعہ کو ہونے والا اجلاس تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔  

اس دوران وزارت اطلاعات کی جانب سے صحافیوں کو بتایا گیا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف سرکاری ملازمین کے وکیل بن گئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے۔‘ جبکہ دوسری جانب حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم 50 فیصد اضافے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔  

اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی خبر باہر آ چکی تھی، تاہم اجلاس ختم ہوا تو کابینہ کے کسی بھی رکن نے کوئی بات نہ کی اور سب ہال کے اندر چلے گئے۔

وزیر خزانہ اپنی تقریر کے دوران کئی مرتبہ رکے کہ کاش کوئی دادوتحسین ملے اور ارکان ڈیسک بجا دیں، لیکن ایسا نہ ہوا (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

اجلاس شروع ہوا اور وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کا آغاز کیا تو ان کا خیر مقدم بہت ہی دھیمے سے انداز میں ڈیسک بجا کر کیا گیا۔ اپوزیشن تو برائے نام ہی موجود تھی اس لیے حکومتی ارکان کی توجہ بھی بجٹ تقریر سے زیادہ ایک دوسرے سے گپ شپ اور فوٹو سیشن پر ہی رہی۔ اکثر ارکان اپنے کاموں کے لیے فائلز اٹھائے وفاقی وزرا اور وزیراعظم کی نشستوں کے چکر لگاتے دکھائی دیے۔  

وزیر خزانہ اپنی تقریر کے دوران کئی مرتبہ رکے کہ کاش کوئی داد و تحسین ملے اور ارکان ڈیسک بجا دیں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ جب وہ لکھی ہوئے تقریر کے گیارھویں صفحے اور تقریباً پندرھویں منٹ میں تھے تو اعلان کیا کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ اس پر ایوان میں ڈیسک بجائے گئے مگر ایسا ہی محسوس ہوا کہ صنعت کار ارکان ہی اس اعلان سے خوش ہوئے ہیں۔  

وزیر خزانہ کی تقریر میں دوسری بار ڈیسک زرعی پیکج کے اعلان پر اور آخری بار سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں اور مراعات کے اعلان پر بجائے گئے۔

اپنی تقریر کے آخر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سید صادق حسین کا یہ شعر ’تندی باد مخالف سے نہ گبھرا  اے عقاب ، یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘ پڑھا تو مجھے یاد آیا کہ تحریک انصاف کے دور میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران انتہائی مشکل میں اپنی تقریر مکمل کرنے والے حفیظ شیخ نے بھی یہی شعر پڑھا تھا، لیکن شدید احتجاج کی وجہ سے ان کی جانب سے پڑھا گیا شعر موقع محل کی مناسبت سے زیادہ موزوں لگا تھا۔  


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.