کرہ ارض کو ’بھسم کر دینے والی جوہری آگ‘ کا خدشہ کیسے پیدا ہوا؟

جوہری تحقیق کے ابتدائی سالوں میں بعض سائنسدانوں کو یہ خدشہ تھا کہ کھلے ایٹموں کے ٹوٹنے سے رد عمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو زمین کو تباہ کر دے گا۔
جوہری دھماکہ
Getty Images

جوہری تحقیق کے ابتدائی سالوں میں بعض سائنسدانوں کو یہ خدشہ تھا کہ کھلے ایٹموں کے ٹوٹنے سے رد عمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو زمین کو تباہ کر دے گا۔

کرسٹوفر نولان کی فلم ’اوپنہائمر‘ میں ایک منظر ہے جس میں مین ہٹن پراجیکٹ کے کچھ سائنسدانوں کو یہ لگ رہا ہے کہ ایٹم بم کا پہلا تجربہ زمین کو بھسم کر دے گا۔

کہانی اس طرح ہے کہ ایڈورڈ ٹیلر نے سب سے پہلے سنہ 1942 میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا جس کو اتنی سنجیدگی سے لیا گیا کہ چند سائنسدانوں نے حساب کتاب کرنا شروع کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ سیارے کی تباہی کا ’کوئی امکان نہیں۔‘

تاہم اس قسم کی خدشات کا اظہار جوہری بم بنانے کی سنجیدہ کوششوں سے پہلے کی دہائيوں میں بھی کیا جاتا رہا تھا جب بہت سے لوگوں کو ایٹم کا توڑا جانا اپنے آپ میں خالص سائنس فکشن لگتا تھا۔

اگرچہ آج کی مصنوعی ذہانت اور اس وقت کے جوہری ہتھیاروں کے خدشات کے درمیان مقابلہ کرنا ذرا زیادہ دور کی کوڑی لانا ہو سکتا ہے لیکن جس طرح سے یہ تشویش فرسودہ قیاس آرائیوں سے لے کر سنگین تشویش کی طرف بڑھی ہے وہ ہمیں آج کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے متعلق خوف کے بارے میں سبق دے سکتی ہے۔

بہت پہلے رومی ماہر فطرت پلینی دی ایلڈر نے یہ کہا تھا کہ تمام آتش گیر مادّے کے پیش نظر یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ دنیا ابھی تک نہیں جلی۔

لیکن ایک مدت تک سب نے یہ سمجھا کہ اگرچہ اشیاء جل سکتی ہیں لیکن جن ایٹم سے وہ بنی ہیں وہ مستحکم اور مضبوط ہیں۔

سنہ 1900 کی دہائی کے آتے ہی میری کیوری نے دنیا کے سامنے ریڈیو ایکٹیویٹی کے راز افشاں کیے اور یہ مفروضہ راتوں رات بدل گیا۔

میری کیوری
Getty Images
میری کیوری کی دریافت نے انسانی سوچ کی سمت کو بدل کر رکھ دیا

میری کیوری کی دریافت نے غیر متوقع طور پر توانائی کے بڑے ذخائر کی نشاندہی کی جو مادے کے تہہ خانے میں بند ہے۔

جیسے ہی وہ بکھرتی یا ٹوٹتی ہیں تو ریڈیو عناصر اس اندرونی دولت کو خارج کرتے ہیں۔ لیکن یہ کہا گيا کہ کیا تمام ایٹموں میں اس طرح کی شدت کا عمل ہوتا ہے۔ افریقی امریکی سائنسدان سی ایچ ٹرنر نے سنہ 1905 میں کہا تھا کہ یہ انکشافات ’بت شکن‘ یا ’آئیکونو کلاسٹک‘ تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ زمینی مادہ، یہاں تک زیر زمین موجود کچی دھاتیں بھی توانائی سے بھرپور ہیں۔

اس انکشاف کے بعد سائنسدان یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آیا ہمارا سیارہ مستحکم اور آباد ہونے کی جگہ ہے یا پھر ڈائنامائٹ کا ’ذخیرہ ‘۔

سنہ 1903 کے اوائل میں نیوکلیئر فزکس کے بانیوں میں سے ایک فریڈرک سوڈی نے لکھا کہ کسی وقت کوئی سائنسدان اچانک ایک ’مناسب ڈیٹونیٹر‘ تلاش کر لے گا اور اس ذخیرے کو چین ری ایکشن یا مسلسل ردعمل سے بھڑکا دے گا۔

یہ نکتہ ایک مضمون میں بیان کیا گیا جس میں شاید وہ اپنے قارئین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (انھیں باتوں کو ڈرامائی رنگ دینے کا ملکہ حاصل تھا)۔

سیاروں کے پھٹ جانے کا تصور روشن خیالی کے زمانے سے ہی موجود ہے جب ماہرین فلکیات نے مریخ اور مشتری کے درمیان غیر معمولی طور پر موجود وسیع خلاء کی وضاحت تلاش کرنا شروع کی اور ملبے سے بھری ہوئی ایک بڑی کھائی پائی۔

بہر حال کوئی بھی معلوم قوت کسی سیارے کو توڑ پھوڑ نہیں سکتی تھی۔ سوڈی نے سنہ 1903 میں قیاس آرائی کی تھی کہ ریڈیو ایکٹیویٹی اس میں تبدیلی لا سکتی ہے۔

سوڈی کے تبصرے کے کچھ ہی دن بعد ان کے ریسرچ پارٹنر ارنسٹ ردرفورڈ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جو ممتاز رسالوں میں شائع کیے گئے۔

ردرفورڈ نے ’مذاق‘ میں کہا کوئی ’احمق‘ ہی ہوگا جو لیب میں انجانے میں کائنات کو اڑا دے۔‘ سوڈی نے اس کے بعد کہا کہ کو کوئی اس ’لیور‘ یا بٹن پر ہاتھ رکھ سکتا ہے جس سے ’کرۂ ارض تباہ ہو جائے۔‘

یہ نیوکلیئر فزکس کی انتہائی ناپختگی کا زمانہ تھا اور یہ سائنس بمشکل ایک سال پرانی تھی۔ اس لیے اس طرح کے تبصرے بے بنیاد قیاس آرائیاں تھیں جو کہ سنجیدہ مفروضوں سے کہیں زیادہ بیان بازیاں تھیں۔

یہ کچھ ایسا تھا جیسے سوڈی اور ردر فورڈ شیخی بگھار رہے ہوں اور اپنے نوزائیدہ میدان عمل کے لیے احترام کا جذبہ پیدا کرنے اور اس کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

درحقیقت دوسری جگہوں پر بھی بعض محققین بظاہر بڑھا چڑھا کر عجیب و غریب دعوے کرنے کا مقابلہ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یورینیم کے ایک دانے میں پوشیدہ قوت ٹنوں ٹن ٹی این ٹی ہے۔

اس طرح کی بیان بازی سائنسی نمائش کی کارروائیاں تھیں جو عوام کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے کی کوششیں تھیں اور اس کے ساتھ وہ اپنے پیشے کی بے پناہ قوت اور ان میں مضمر خطرات کو پیش کر رہے تھے۔

سوڈی اور ردر فورڈ ایسا کرنے کے لیے ہلا دینے اور چونکا دینے والے مناظر کا استعمال کرنے سے نہیں ڈرتے تھے۔

وہاں سے سائنس نے اپنی شکل اختیار کرنی شروع کی۔ سنہ 1903 کے آخر میں ایسے مضامین شائع ہوئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ ’ایک چابی کو چھوتے ہی‘ سلسلہ وار رد عمل کے نتیجے میں ’پوری زمین اڑ سکتی ہے‘۔

اس طرح کے دعوے سائنسی برادری اور پریس دونوں کے ذریعے شروع ہوئے اور بلاآخر پھیل گئے۔ اخبارات نے ’شعلے کے پھٹنے سے‘ زمین کے ’وسیع آتش فشاں‘ کی طرح بھڑکنے کی بات کہی۔

سنہ 1909 میں آئرلینڈ کے ماہر ارضیات جان جولی نے اس افسانہ سازی میں ایک نیا جزو شامل کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ان نئے ستاروں کی وضاحت ہو سکتی ہے جو رات کو آسمان میں وقتاً فوقتاً چمکتے ہیں۔

کئی دوسرے سائنسدانوں نے یہ قیاس لگایا کہ شاید وہ دور دراز کے سیارے ہیں جو جوہری رد عمل کے نتیجے میں حادثات سے گزر رہے ہیں۔ یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ ’ستاروں میں نظر آنے والے دھماکے کاسموکلاسٹک دھماکوں‘ کے نتائج ہو سکتے ہیں جو اجنبی تہذیبوں کی سائنسی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ہوئے ہوں۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سنجیدہ سائنس دان قیاس آرائیاں کرتے رہے۔

کیمسٹ والٹر نیرنسٹ نے سنہ 1921 میں بنی نوع انسان کا موازنہ بارود کی گیند پر رہنے والی مخلوق کی آبادی سے کیا جو اساطیری کردار پرومیتھیئس کے ٹارچ دینے کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔

عطائیوں نے اصل مقصد کو بڑھانے کا کام کیا۔ سنہ 1924 میں شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک انجینئر نے فخریہ طور پر دعوی کیا کہ وہ کامیابی سے ایٹموں کو توڑنے والا ہے۔ (وہ خود کو پیش پیش رکھنے میں اچھا تھا: اس سے پہلے ’موت کی کرن‘ کی ایجاد کے دعوے پر وہ خبروں کی زینت بنا تھا۔)

مقامی صحافیوں نے اس کو سنسنی خیز بنا دیا اور کہا کہ اس کے تجربات نہ صرف شیفیلڈ بلکہ پوری کائنات کو ’بخارات کی طرح اڑا‘ دیں گے۔ انجینیئر کو خوف کے اظہار والے خطوط موصول ہوئے جس میں ان سے آگے نہ بڑھنے کی التجا کی گئی۔

ایک خط میں لکھا تھا کہ ’اگر آپ ایک شادی شدہ آدمی ہوتے جس کے بچے بھی ہوتے تو شاید آپ نسل انسانی کی ممکنہ تباہی کے اتنے خواہش مند نہیں ہوتے۔‘

بہر حال اس طرح کے خوفناک اندازوں کے ساتھ آنے والی دہائیوں میں سائنسی تحقیقات نے ایک مختلف جہت اور لہجہ اختیار کیا کیونکہ جوہری ہتھیار بنانے کی ٹھوس کوششیں رفتہ رفتہ اپنے مقصد کے حصول کی طرف بڑھتی رہیں اور بالآخر ایک المناک حقیقت میں بدل گئیں۔

اس مذاق کے باوجود کہ کس طرح زمین کے بھسم ہو جانے سے ’مریخ کے ساحلوں پر سن باتھ لیا جا سکتا ہے‘ کارل ینگ سمیت بہت سے دانشور اس نظریہ کا حوالہ دیتے رہے کہ نووا (ستارہ جو جل کر بچھ جاتا ہے) دور دراز کے اٹامک ٹیسٹ میں خرابی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ سائنس جریدے نے جون 1946 میں بکنی ایٹول میں امریکہ کے جوہری ٹیسٹ کے موقع پر اس کے متعلق ایک مضمون بھی شائع کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صرف ’غیر سائنس دان‘ ہی سیاروں کے اگنیشن کے ’امکان سے پریشان‘ نہیں ہیں۔

اس سب سے کیا سمجھا جائے یا کیا سبق لیا جائے؟ سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ٹیلر کے خوف کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ ان کے مین ہٹن پروجیکٹ کے ساتھیوں میں یہ بات یوں ہی نہیں ابھری ہوگی۔

یہ عین ممکن ہے کہ ان میں یہ خوف اس لیے در آیا ہو کہ ان سے پہلے کسی نے اس طرح کی آفات کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی توجہ وہاں مبذول کرائی گئی ہو کیونکہ ’دھماکہ‘ کی شکل ثقافتی شعور میں بہت گہرائی سے داخل ہو چکی تھی۔

لیکن یہ چار دہائیوں پہلے سوڈی کی طرف سے یوں ہی سرسری کہے جانے والے ایک فقرے کا دماغ میں رہ جانا تھا۔ لیکن اس وقت سوڈی نے وہ بات بہت زیادہ سنجیدہ بصیرت کے ساتھ نہیں کہی ہوگی اور یہ بہت حد تک اس کے چونکانے والی حکمت عملی کے ساتھ اپنے نئے میدان کو فروغ دینے کی خواہش سے پیدا ہوا ہوگا۔

شاید اگر وہ ایسا نہ کرتا یا اگر ردر فورڈ نے اسے پھیلایا نہ ہوتا تو یہ اس طرح جڑ نہ پکڑتا جس طرح اس نے پکڑا۔

ہمارے خوف کی ہمیشہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی ہے۔ وہ کسی حد تک ماضی کی پیداوار بھی ہوتا ہے، جہاں کچھ محرکات شامل ہو جاتے ہیں جس میں کئی چیزوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ موقعے کے اعتبار سے کئی وہم پیدا ہو جاتے ہیں۔

اور یہ اس وقت تک دور نہیں ہوتے جب تک کہ کوئی سنجیدہ تحقیق اسے غلط ثابت نہ کر دے۔

جوہری دھماکہ
Getty Images

موجودہ اضطراب ہمیں وراثت میں ملا ہے جو کئی وجوہات کی بنا پر پروان چڑھتا رہا۔

آج جب اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت سے متعلق بربادی کے عجیب وغریب مفروضوں کی بات ہو رہی ہے تو یہ سوچ سمجھ کر جانچ پڑتال کا سبب ہونا چاہیے نہ کہ جلد بازی میں برطرف کر دیے جانے کا۔

بہر حال جوہری خوف کے معاملے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کس طرح ایک قیاس آرائی پر مبنی بھوت بہت سے لوگوں کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سائنس فکشن سے نکل کر ٹھوس حقیقت تک جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 1929 میں نوبل انعام یافتہ رابرٹ ملیکن نے لکھا کہ ایٹموں کو توڑنے سے حاصل ہونے والی توانائی ’شاید مونگ پھلی یا پاپ کارن والوں کا کام چلانے کے لیے کافی ہو‘ لیکن ’یہ بس اتنا ہی ہے۔‘ بہتوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی توانائی کبھی نہیں آئے گی۔

بہر حال ہمیں ان چیزوں سے چوکنا رہنا چاہیے جو ہماری پشین گوئیوں اور خوف کو بگاڑ سکتے ہیں۔

عالمی تصادم کے کرشماتی خیالات آئے اور چھائے اور ابتدائی قیاس آرائی کرنے والوں کے لیے آسانی سے پھیل گئے لیکن کسی نے بھی واضح طور پر ان خطرات کا اندازہ نہیں لگایا جو ایٹمی دھماکے نے عملی طور پر پیش کیا۔

شاید مصنوع ذہانت کے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ ڈرامائی خطرات پر ہماری توجہ ہونی چاہیے لیکن اسے عملی بھی ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی دوسرے کے خیالات کو یکسر مسترد نہیں کرنا چاہیے خاص طور پر جب ایک بار پھر ہماری دنیا کو ممکنہ خطرہ لاحق ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts