سراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانی

انڈیا میں اور خصوصی طور پر بنگال میں لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو میر جعفر کی سازش کی وجہ سے ہی انگریزوں سے شکست ہوئی تھی۔ تاہم میر جعفر کے ورثا اس کو نہیں تسلیم کرتے۔
میر جعفر
BBC

مرشد آباد شہر کے مشہور سیاحتی مقامات ہزارہ دوری اور امام باڑہ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بڑا لیکن خستہ حال دروازہ ہے جس کی لال اینٹیں کافی حد تک ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔

اس دروازے سے، جسے ’شیر دروازہ‘ بھی کہا جاتا ہے، اندر داخل ہوتے ہی ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہاں نصب ایک قدیم نیلے رنگ کے بورڈ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ٹائم مشین نے آپ کو 268 سال پرانے کے زمانے میں پہنچا دیا ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ اپنی نظروں کے سامنے ایک نوجوان لیکن تباہ حال قیدی کو گزرتے دکھ سکتے ہیں۔ یہ یکم یا دو جولائی 1757 کا منظر ہے۔ اس قیدی کو چند ہی دن پہلے تک منصور الملک یا ہیبت جنگ کے نام سے بہت عزت اور احترام سے پکارا جاتا تھا۔

اس کا پورا نام میر سید ظفر علی خان مرزا محمد سراج الدولہ تھا یعنی نواب سراج الدولہ۔ ڈھائی سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باجوجود آج بھی اس شیر دروازے کو، جہاں سے قیدی سراج الدولہ گزرے تھے، ’نمک حرام ڈیوڑھی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

آپ کے لیے یہ سوچنا مشکل نہیں ہو گا کہ اس نام کی وجہ کیا ہے اور یہ محل کس کا ہو گا؟ یہ جعفر آباد محل ہے اور ایک زمانے میں میر جعفر کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔

میر جعفر کا تباہ شدہ محل
BBC
میر جعفر کا تباہ شدہ محل

’نمک حرام ڈیوڑھی‘

پلاسی کی جنگ کے بعد سے ہی مقامی لوگوں نے میر جعفر کےمحل کو ’نمک حرام ڈیوڑھی‘ پکارنا شروع کر دیا تھا۔

کچھ مورخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسی محل میں ہی سراج الدولہ کو قتل کیا گیا تھا تاہم اس بارے میں ایک اور رائے بھی موجود ہے۔

اس رائے کے مطابق سراج الدولہ کو گنگا کنارے موجود ان کے ہی محل میں، جسے منصور گنج محل کہتے تھے، میں لا کر میر جعفر کے بیٹے میرن کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔

فارق عبداللہ لال باغ کالج میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سراج الدولہ کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے اور ان ٹکڑوں کو ہاتھیوں پر مرشد آباد شہر لایا گیا۔‘

’مجھَے میر جعفر کے جانشینوں سے علم ہوا کہ جب یہ ہاتھی اس مقام پر پہنچے جہاں آج کا سرائے خانہ علاقہ ہے تو مقامی لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عوامی احتجاج کا سپاہی سامنا نہ کر سکے اور سراج الدولہ کی لاش کے ٹکڑے ایک کنویں میں پھینک کر فرار ہو گئے۔ تب سے اس جگہ کا نام سراج الدولہ بازار پڑ گیا لیکن اب یہ موجود نہیں۔‘

غداری

لیکن میر جعفر کے ورثا کے مطابق ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ وہ خاندانی ذرائع سے سنی جانے والی ایک اور کہانی سناتے ہیں۔ ان کے مطابق ’سراج الدولہ کو میرن کے حکم پر قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ انھیں دو برطانوی سپاہیوں نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔‘

میر عبداللہ بھی میر جعفر کے ورثا میں شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے خاندان کے بڑوں سے سنا کہ سراج الدولہ کو جب گرفتار کر لیا گیا تھا تو بعد میں میر جعفر کو انگریزوں کی چال سمجھ آئی اور انھوں نے میرن کو بھیجا تاکہ سراج کو فرار ہونے میں مدد دی جا سکے۔‘

’لیکن وہاں دو برطانوی سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ انھیں اس منصوبے کا علم ہو گیا اور انھوں نے سراج الدولہ کو فوری گولی مار دی۔‘

میر جعفر کے ورثا کہاں ہیں؟

میر جعفر کے ورثا دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ کچھ مرشد آباد میں ہی ہیں اور انھیں آج بھی نواب یا چھوٹے نواب کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ لال باغ قلعے کے اندر بھی رہتے ہیں۔

سید محمد راجہ علی مرزا، جنھیں چھوٹے نواب بھی کہا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ ’ہمارے خاندان کے تین ہزار رکن ہیں۔ کچھ یہیں رہتے ہیں، کچھ برطانیہ، امریکہ یا دوسرے ممالک منتقل ہو چکے ہیں لیکن ان سب کے گھر یہاں بھی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے چوتھے اور آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر سکندر علی مرزا بھی میر جعفر کے ورثا میں شامل ہیں جو برطانیہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد فوج میں شامل ہو گئے تھے۔

میر جعفر کے آباؤاجداد کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عرب سے انڈیا آئے تھے۔ ان کے ورثا کا دعویٰ ہے کہ ان کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسن اور امام حسین سے جا ملتا ہے۔

بائیں سے سیدہ ترت بیگم، سید محمد باکر علی مرزا، چھوٹے نواب سید محمد راجہ علی مرزا
BBC
بائیں سے سیدہ ترت بیگم، سید محمد باقر علی مرزا، چھوٹے نواب سید محمد راجہ علی مرزا

میر جعفر کے بارے میں مستند تاریخی کتب میں بھی حوالے موجود ہییں۔ پرنا چندرا مجمدار کی کتاب ’مرشد آباد کی مسند‘ جو 1905 میں چھپی تھی کے علاوہ فضل ربی کی کتاب ’حقیقت مسلمانان بنگلہ‘ میں بھی میر جعفر کے آباؤ اجداد کی تفصیلات ملتی ہیں۔

مورخ رجت کانت رائے کا کہنا ہے کہ ’میر جعفر بنگال میں مغل فوج میں بخشی ہوا کرتے تھے یعنی جس عہدے کو انگریزی میں بعد میں چیف کمانڈر کہا گیا یا پھر پے ماسٹر جنرل۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب میر جعفر مغل فوج میں شامل ہوئے تو پہلے وہ ایک عام گھڑ سوار سپاہی تھے۔ رفتہ رفتہ وہ ترقی پاتے چلے گئے خصوصا علی وردی خان کے دور میں۔ علی وردی نے ان سے حلف لیا تھا کہ وہ کسی بھی جنگ میں ہر حال میں سراج الدولہ کا ہی ساتھ دیں گے۔‘

’پلاسی کا غدار‘

میر جعفر کا خاندانی قبرستان
BBC
میر جعفر کا خاندانی قبرستان

انڈیا میں اور خصوصی طور پر بنگال میں لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو میر جعفر کی سازش کی وجہ سے ہی انگریزوں سے شکست ہوئی تھی۔ تاہم میر جعفر کے ورثا اس کو نہیں تسلیم کرتے۔

سید محمد باقر علی مرزا کہتے ہیں کہ ’جنگ کس لیے ہوئی؟ حکم کس نے دیا تھا؟ میر جعفر کا خیال تھا کہ وہ سپہ سالار ہے لیکن حکم کس نے دیا تھا؟‘

’کیا غداری کی تھی اس نے؟ جنگ ہوئی لیکن وہ شامل نہیں ہوا اسی لیے اسے غدار کہتے ہیں، اگر وہ اس لیے غدار ہو گیا کہ وہ جنگ میں شامل نہیں تھا تو یہ قابل قبول نہیں۔ آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کر سکا کہ میر جعفر نے کیا غداری کی تھی۔‘

لیکن میر جعفر کے ورثا ڈھائی سو برس سے زیادہ عرصے سے طعنے سنتے چلے آ رہے ہیں۔

سیدہ ترت بیگم کے مطابق وہ میر جعفر کی آٹھویں نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انگریزوں نے میر جعفر سے چال چلی اور پورے ملک کے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ میر جعفر کو ایک جال میں پھنسا کر اسے غدار بنا دیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’آج تک اگر اس خاندان میں کوئی کچھ برا کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ میر جعفر کی اولاد ہے اور کوئی اچھا کام کر لے تو لوگ کہتے ہیں یہ تو مرشد آباد سے ہے۔‘

میر جعفر کو غدار کہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا لیکن تین سال کے عرصے میں ہی میر جعفر کو عہدے سے ہٹا کر میر قاسم کو بنگال کا حکمران بنا دیا گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد میر جعفر کو دوبارہ واپس لایا گیا۔

پانچ فروری 1765 کو وفات کے وقت بھی میر جعفر ہی بنگال کے نواب تھے۔ انھیں محل کے سامنے خاندانی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts