پاکستان کے خلاف اپنا شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے کوہلی نے یقینی بنایا کہ ڈیتھ اوورز سے بھی بھرپور نفع کشید کیا جائے۔ راہول اور کوہلی کی ساجھے داری کے بعد بارش ہی پاکستان کا بہترین ہدف ہو سکتی تھی، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔

کولمبو میں بارش تھم چکی تھی مگر پاکستانی ڈریسنگ روم کے لیے یہ کوئی نوید نہیں تھی۔ شیشے کی دیواروں سے جھانکتے چہرے مرجھاتے چلے جا رہے تھے کہ میدان میں پھر سے انڈین پیس بولنگ کا قہر برسنے کو تھا اور پاکستانی بیٹنگ تہی دامن ہو چکی تھی۔
ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کوئی کپتان تبھی کر سکتا ہے جب اسے اپنے فاسٹ بولرز پر فقط اعتماد ہی نہیں، مکمل یقین ہو۔ بابر کو بھی شاہین پر بھرپور یقین تھا اور پھر پچھلے چند پاکستان انڈیا مقابلوں کی رِیت بھی تو یہی رہی ہے کہ شاہین کی لیفٹ آرم پیس انڈین ٹاپ آرڈر کے گلے کا طوق بن جایا کرتی ہے۔
مگر ہر بہترین کا ایک بدترین بھی ہوتا ہے۔ شاہین اپنے کرئیر کے اوائل میں کئی ایک برے دن دیکھ چکے ہیں لیکن نمبرون کی شہرت کمانے کے بعد سے یہ شاید ان کا بدترین دن تھا۔ وہ ہمیشہ روہت شرما پر بھاری پڑتے آئے ہیں مگر یہاں شرما اور شبھمان گِل ان پر بھاری پڑ گئے۔
شروعات سے ہی انڈین ٹاپ آرڈر نے اپنے عزائم کی جارحیت عیاں کر دی۔ لیفٹ آرم پیس کے خلاف پے در پے ناکامیوں سے سیکھے سبق کا اثر یہ تھا کہ شرما سے پہلے ہی شبھمان گِل کے قدم حرکت میں آ گئے اور شاہین کے منصوبے یکسر ڈگمگا گئے۔

پچھلے کچھ عرصے میں پاکستانی فاسٹ بولنگ کا اس قدر شہرہ رہا ہے کہ سپن گویا اس کی بھینٹ چڑھ گئی اور اب یہ عالم ہے کہ اکلوتا لیگ سپنر بھی اپنے سپیل کا آغاز ایک لو فُل ٹاس تھالی میں پروس کے کرتا ہے۔ بہرحال شاداب خان کا یہ بدترین سپیل ہرگز نہیں تھا کہ وہ ماضی قریب میں بھی لگ بھگ یہی کارکردگی دکھاتے چلے آئے ہیں۔
شاہد آفریدی کی طرح اب شاداب خان کے معاملے میں بھی خلجان بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ بطور بولر ٹیم کا حصہ ہیں یا بطور بلے باز۔ خود شاداب کے لیے بھی یہ سمجھنا کچھ دشوار ہے کہ آیا وہ ایک سپنر ہیں جو بیٹنگ بھی کر لیتا ہے یا ایک بلے باز ہیں جو تھوڑی بہت سپن بھی کر لیتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ انڈین بیٹنگ سپنرز کے خلاف قوی ترین ریکارڈ رکھتی ہے مگر شاداب کا یہ سپیل کسی بھی لیگ سپنر کے زاویۂ نگاہ سے مثالی نہیں تھا اور اگرچہ فہیم اشرف دوسرے کنارے سے کچھ دباؤ بنا رہے تھے مگر شاداب کے کنارے سے رنز کی ایسی گنگا بہی کہ پاکستان کی امیدیں بہا لے گئی۔
بابر عظم کے لیے یہ طے کرنا نہایت مشکل تھا کہ بارش کے منڈلاتے خطرے اور حارث رؤف کی انجری کے بعد کس کے اوور کب اور کہاں کروائیں۔ ویسے بھی جب مقابل ورات کوہلی جیسا مشاق کھلاڑی ہو تو اس سے بہتیرا فرق بھی نہیں پڑتا کہ بولنگ کون کروا رہا ہے۔

پاکستان کے خلاف اپنا شاندار ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے کوہلی نے یقینی بنایا کہ ڈیتھ اوورز سے بھی بھرپور نفع کشید کیا جائے۔ راہول اور کوہلی کی ساجھے داری کے بعد بارش ہی پاکستان کا بہترین ہدف ہو سکتی تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
جسپریت بمراہ کی ون ڈے فارمیٹ میں واپسی جتنے بھی سوالات کو جنم دے رہی تھی، وہ سبھی دم توڑ گئے جب انھوں نے امام الحق کے اوسان خطا کیے۔ اسی پر موقوف نہیں، دنیا کے نمبرون بلے باز بابر اعظم بھی جھوجھتے ہی رہ گئے کہ آؤٹ سوئنگ کہاں سے آ رہی ہے اور ان سوئنگ کدھر کو جا رہی ہے۔
طویل عرصے بعد مسابقتی ون ڈے کرکٹ کھیلنے والے بمراہ کی مہارت اور درستی یہاں انتہا پر تھی کہ انھوں نے اس میچ میں دیگر سبھی فاسٹ بولرز سے دوگنا سوئنگ حاصل کی۔ جو وکٹ کچھ ہی دیر پہلے بلے بازی کی جنت نظر آ رہی تھی، یکایک اس کا نقشہ پلٹ گیا اور بیٹنگ ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔
اگرچہ پاکستانی بلے بازوں کے لیے یہ کوئی مثالی دن نہیں تھا مگر وہ اس کی توجیہہ میں بہترین انڈین بولنگ اور فلڈ لائٹس میں نئی گیند سے نمٹنے کی دشواری لا سکتے ہیں مگر اس ساری کہانی سے بہت پہلے، یہ میچ تبھی اپنا فیصلہ کر بیٹھا تھا جب روہت شرما نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔