دفاعی چیمپئین انگلینڈ ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے ہی نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل تک کے لیے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی مگر جو خلجان انگلش کیمپ پر طاری رہا، اس سے خود انگلینڈ ہی نہیں، دیگر ٹیمیں بھی مبہوت سی ہو گئیں۔

ورلڈ کپ کا سفر اب اپنے اختتامی پڑاؤ کی جانب بڑھ رہا ہے اور کچھ نہایت غیر متوقع نتائج کی بدولت دو سیمی فائنلسٹس کی دوڑ ابھی بھی زندہ ہے۔ جہاں کچھ کمزور ٹیمیں بہت عمدہ کرکٹ کھیل گئیں تو وہیں کچھ فیورٹ بھی یوں منہ کے بل گرے کہ سب ششدر رہ گئے۔
دفاعی چیمپیئن انگلینڈ ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے ہی نہ صرف سیمی فائنل بلکہ فائنل تک کے لیے فیورٹ قرار دی جا رہی تھی مگر جو خلجان انگلش کیمپ پر طاری رہا، اس سے خود انگلینڈ ہی نہیں، دیگر ٹیمیں بھی مبہوت سی ہو گئیں۔
بٹلر کی کپتانی میں کہیں بھی اوئن مورگن کی سی فراست نظر نہیں آئی۔ بے وجہ سوچ بچار اور سلیکشن میں متواتر تجربات نے یہ سفر مزید محال کر دیا۔ اس پر مستزاد کہ ٹی ٹونٹی کی بھیڑ میں کچھ تھنک ٹینک ڈیٹا کے اس قدر رسیا ہو چکے ہیں کہ ون ڈے کرکٹ کی ترجیحات بھی آئی پی ایل کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر طے کرنے لگے ہیں۔
لکھنؤ میں ٹاس جیت کر بٹلر نے پہلے بولنگ کا فیصلہ اس لیے کیا کہ آئی پی ایل میں عموماً یہ گراؤنڈ اہداف کے تعاقب کے لیے موزوں رہا ہے مگر یہ فیصلہ بھی انگلش فتوحات کا سلسلہ بحال نہ کر پایا کیونکہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے پیرامیٹرز بہرحال آئی پی ایل سے کہیں مختلف ہیں۔
بعینہٖ کیوی کپتان ٹام لیتھم نے بھی پونے میں جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دے ڈالی۔ حالانکہ یہ تو کرکٹ کا جنرل نالج ہی بتاتا ہے کہ جنوبی افریقہ ہمیشہ اہداف کے تعاقب میں بوکھلاہٹ کا شکار رہا کرتی ہے۔ مگر لیتھم نے بھی آئی پی ایل کے فراہم کردہ ڈیٹا کو کامن سینس پر ترجیح دی۔

ایسی ہی ایک اور غلط فہمی یہاں اوس کے حوالے سے بھی غالب رہی ہے۔ کچھ کپتان محض اس بنیاد پر شدید گرمی میں بھی پہلے بولنگ کر کے اپنے پیسرز کو جوکھم میں ڈالتے رہے کہ دوسری اننگز میں اوس کے سبب گیند پر گرفت رکھنا دشوار ہو گی اور بلے بازی آسان ہو جائے گی۔
مگر دھرم شالہ کے اکلوتے نیوزی لینڈ بمقابلہ انڈیا میچ میں کہرے اور اوس کے سوا یہ کہیں بھی فیصلہ کن پہلو ثابت نہیں ہوا بلکہ کئی ٹیمیں دوسری اننگز کی بولنگ کرتے ہوئے زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔
مگر اس خلجان کے ہنگام بھی بہرحال گاہے بگاہے بہت دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ سری لنکن بولنگ نے جہاں انگلش بیٹنگ کا ٹھٹھہ اڑا چھوڑا تو وہیں افغان بولنگ سری لنکن بلے بازی پر بھاری پڑ گئی اور پھر ایڈن گارڈنز میں نیدرلینڈز نے بنگلہ دیش کو شکست دے کر ایک اور ٹیسٹ ٹیم کے خلاف ریکارڈ کامیابی بٹوری۔
نیدرلینڈز چونکہ ایسوسی ایٹ لیول سے کوالیفائی کر کے آئی تھی، سو بہت کم توقعات اس سے جڑی تھیں مگر آسٹریلیا کے سوا ان کی بولنگ تقریباً ہر ٹیم کے لیے ایک کڑا امتحان رہی ہے۔ سکاٹ ایڈورڈز کی کپتانی بھی ایسی مثبت جارحیت سے لبریز ہے کہ جاس بٹلر، پیٹ کمنز اور بابر اعظم جیسوں کو بھی ان سے سیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور ابھی اگرچہ چار سیمی فائنلسٹس بھی حتمی طور پر طے نہیں پائے کہ اگلی چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن کی دوڑ نے باقی ماندہ مقابلوں میں مزید چاشنی پیدا کر دی ہے۔
نیدرلینڈز اگر اپنے باقی ماندہ میچز میں سے ایک بھی جیت پائے تو اس کے لیے، دو برس بعد، پاکستان کی میزبانی میں چیمپیئنز ٹرافی کھیلنا بعید از امکان نہیں ہو گا۔ یہ بجائے خود ڈچ کرکٹ کے لیے ایک بہت بڑا سنگِ میل ہو گا۔
اور اگر نیدرلینڈز کوالیفائی کر جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ انگلینڈ بھی ممکنہ طور پر چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت سے محروم رہ جائے گی۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کی دفاعی چیمپیئین ٹیم کے لیے یہ ایک ایسا جھٹکا ہو گا جو ٹیم الیون اور منیجمنٹ میں سے کئی گردنوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

انڈین پچز پر منعقدہ ورلڈ کپ میں متوقع یہ تھا کہ یہاں سپنرز سیمرز کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہوں گے مگر ابھی تک کی دو واضح سیمی فائنلسٹس انڈیا اور جنوبی افریقہ کی کامیابیوں میں پیسرز کی وکٹوں کا تناسب سپن سے کہیں زیادہ ہے۔
اور جہاں نسیم شاہ کی انجری سے پہلے پاکستانی پیس اٹیک دنیا کا مضبوط ترین بولنگ یونٹ قرار دیا جا رہا تھا، وہاں بمراہ کی واپسی کے بعد محمد سراج اور شامی کے ہمراہ ان کا اٹیک اس دعوے کو چیلنج کر رہا ہے۔ ساتھ ہی مارکو یئنسن، کگیسو ربادا اور جیرلڈ کوئٹزی کا جوڑ بھی اس دعوے کی دوڑ سے دور نہیں۔
اپنے پہلے دو ہفتوں میں بوریت کی عملی تصویر بنے اس ایونٹ کے لیے یہ خوش کن ہے کہ باقی ماندہ دو سیمی فائنلسٹس کی دوڑ ابھی تک یوں زندہ ہے کہ آسٹریلیا، سری لنکا، افغانستان، پاکستان اور نیوزی لینڈ کے امکانات لگ بھگ یکساں ہیں۔
یہ اگر ون ڈے کرکٹ کے مستقبل کی ضمانت نہ بھی سہی، بہرحال ایک نیک شگون تو ہے۔