راہل دراوڈ: وہ شخص جو کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی مسلسل فتوحات کا ذمہ دار ہے

دراوڈ کو اپنے شاندار کریئر میں ایک محنتی کھلاڑی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسے مواقع آئے جب انھوں نے اپنی وکٹیں بہت آسانی سے گنوا دیں۔ اسی لیے وہ ’دی وال‘ یا ’مسٹر ڈیپنڈیبل‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
راہل دراوڈ انڈین کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں
Getty Images
راہل دراوڈ انڈین کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں

یہ سنہ 2003 کی بات ہے جب راہل دراوڈ اور ان کی ٹیم جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے نیو وانڈررز سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں اس وقت کی ناقابل شکست آسٹریلین ٹیم کے مد مقابل تھی۔

لوگوں کو انڈین ٹیم سے توقعات بہت زیادہ تھیں کیونکہ یہ ٹیم تقریباً دو دہائیوں کے بعد فائنل میں پہنچی تھی۔

لیکن یہ میچ انڈینز کے لیے دل دہلا دینے والا ثابت ہوا اور آسٹریلوی کھلاڑیوں نے ٹیم انڈیا کو بری طرح شکست سے دو چار کیا۔

پھر سنہ 2007 میں انڈیا کو اس باوقار ٹورنامنٹ میں ایک اور موقع ملا اور اس بار راہل دراوڈ انڈین ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔

لیکن اس بار ٹیم انڈیا ون ڈے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں ناک آؤٹ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔

تقریباً 20 سال بعد وہی کلاسیکل بیٹسمین راہل دراوڈ ایک پھر سے میدان میں ہیں لیکن اس بار وہ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر ہیں اور ان کی ٹیم اتوار کو گجرات کے شہر احمد آباد میں ہونے والے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کے مقابل ہوگی۔

اب وہ اس باوقار ٹرافی کو اٹھانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں، یہ الگ بات ہے لیکن دنیا کے عظیم کوچز میں دراوڈ کا مقام تقریباً طے ہے۔

یہاں یہ ایک اہم سوال ہے کہ انھوں نے ایک لیجنڈری بلے باز سے خود ایک ایسے کوچ میں کیسے تبدیل کیا جو پردے کے پیچھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اپنی ٹیم کی مضبوط پرفارمنس سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں؟

اس کا جواب ان کے شاندار کریئر میں مضمر ہے۔

دراوڈ اور روہت شرما
Getty Images
دراوڈ اور روہت شرما

’دی وال‘

دراوڈ کو اپنے شاندار کریئر میں ایک محنتی کھلاڑی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسے مواقع آئے جب انھوں نے اپنی وکٹیں بہت آسانی سے گنوا دیں۔ اسی لیے وہ ’دی وال‘ یا ’مسٹر ڈیپنڈیبل‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

ان کی کلاسیکل بیٹنگ اس وقت دیکھنے کو ملی جب دراوڈ نے وی وی ایس لکشمن کے ساتھ سنہ 2001 میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جا رہے ٹیسٹ میچ میں 376 رنز کی یادگار پارٹنر شپ نبھا کر کھیل کا رخ اس وقت موڑ دیا جب شکست تقریباً یقینی نظر آ رہی تھی۔

2004 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ میں راہل دراوڈ کی 12 گھنٹے کی اننگز کو آج بھی ان کے کھیل کے مزاج کے حساب سے بہترین مثال سمجھا جاتا ہے۔

دراوڈ سنہ 2011 میں انگلینڈ کے تباہ کن دورے کے دوران اپنے ساتھیوں کے درمیان مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگرچہ انڈین ٹیم کو میزبانوں کے ہاتھوں صفر کے مقابلے چار میچز سے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دراوڈ نے اس سیریز میں 602 رنز بنائے۔

میدان میں آخر تک کریز پر جمے رہنے کا انداز ان کی کوچنگ کے انداز میں بھی نظر آتا ہے۔

لیکن جب آپ مزید قریب سے دیکھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ دور بھی ان کے لیے بہت آسان نہیں رہا۔ اپنے کھیل کے دنوں کی طرح دراوڈ نے بطور کوچ سخت محنت کی، تنقید کو نظر انداز کیا اور اپنے جانے پہچانے انداز کو ترک نہیں کیا۔

راہل دراوڈ
Getty Images
وہ ’دی وال‘ یا ’مسٹر ڈیپنڈیبل‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں

بحران کے درمیان ذمہ داری

ان کی کامیابی کسی خلا سے نہیں آئی۔ ان کی ابتدا وہاں سے ہوئی جہاں سے بین الاقوامی سطح پر پرفارم کرنے کے لیے تیاری ہوتی ہے اور جہاں سے انڈیا کی سینیئر ٹیم کا ٹیلنٹ آتا ہے۔

وہ 2016 میں انڈیا کی انڈر 19 اور اے (جونیئر نیشنل سائیڈ) ٹیموں کے ہیڈ کوچ بنے۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جو قومی سطح کی گلیمر اور چمک سے بہت دور ہوتی ہے۔

لیکن اس میں بھی انھوں نے اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا اور اپنی ٹیم کو 2018 میں ہونے والے انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچایا۔ جونیئر سطح تک ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے کے تین سال بعد، انھیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی (این سی اے) کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

نیشنل کرکٹ اکیڈمی ایک پریمیم سینٹر ہے جہاں کھلاڑی اپنی فٹنس کو بہتر بنانے یا انجری سے صحت یاب ہونے کے لیے وقت گزارتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

راہل دراوڈ: مشکل وقت میں ذمہ داری سنبھالنے والے کوچ انڈیا کی کامیابی میں کیسے کردار ادا کر رہے ہیں؟

انڈيا: نئے کرکٹ کوچ کی تقرری کے بعد بھی تنازع جاری

سورو گانگولی کے سات تنازعے جنھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے

جب وہ این سی اے میں تھے تو انڈین کرکٹ بڑے انتشار کے دور سے گزر رہی تھی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ٹرافی کے لیے ملک کا انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا۔ انڈیا نے آخری بار سنہ 2013 میں کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ جیتا تھا۔

انڈیا کو 2019 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں دلخراش شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس پس منظر میں دراوڈ کو 2021 میں ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی۔

سینیئر ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی پہلے ہی دراوڈ سے جونیئر سطح پر تربیت یا رہنمائی حاصل کر چکے تھے۔

اس لیے دراوڈ کے لیے انھیں سنبھالنا بہت آسان لگ رہا تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہیں اور جب سنہ 2022 میں وراٹ کوہلی نے کپتانی چھوڑی تو مسائل بڑھ گئے۔

کوہلی اور دراوڈ
Getty Images
کوہلی اور دراوڈ

کھلاڑیوں کا انتخاب

دراوڈ کو اپنے معمول کے انداز میں واپس آنا پڑا۔ انھوں نے ہنگامہ آرائی پر لگام لگائی اور اپنی ٹیم سے کہا کہ وہ ان کے کام پر بھروسہ کریں اور شکست سے پریشان نہ ہوں۔

ان کی نظریں 2023 میں انڈیا میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ پر مرکوز تھیں۔ انھیں بہت سے الگ الگ کامبینیشن کا تجربہ کرنا پڑا خواہ انھیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑا ہو۔

انھوں نے اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ کیا۔ جب کے ایل راہل کی ٹیم میں شمولیت پر ناقدین نے سوال اٹھائے تو انھوں نے اس بلے باز کی بھرپور حمایت کی۔

آج راہل ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی بیٹنگ کے لیے بھروسہ مند ہیں بلکہ وکٹ کیپنگ کی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی ٹیم کا ان پر انحصار ہے۔

دراوڈ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ سنہ 2003 کے ایڈیشن میں انھوں نے بے لوث وکٹ کیپنگ کی تاکہ ٹیم میں ایک اضافی بلے باز یا بولر کھیل سکے۔

راہل دراوڈ وکٹ کیپر نہیں تھے، لیکن وہ ٹورنامنٹ میں کسی دوسرے وکٹ کیپر کی طرح اچھا کام کر رہے تھے۔

بہت سے لوگوں نے شریاس اییر کی ٹیم میں شمولیت پر بھی سوالات اٹھائے لیکن وہ انھوں نے چوتھے نمبر اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔

درا وڈ نے اپنے گیند بازوں میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، خاص طور پر تیز گیند بازی کے شعبے میں جس میں محمد سراج، محمد شامی اور جسپریت بمراہ شامل ہیں۔

روہت شرما اور دراوڈ
Getty Images
روہت شرما اور دراوڈ

درست کامبینیشن اور فارم

درحقیقت راول دراوڈ کے پراسیس میں یہ یقینی بنانا شامل تھا کہ ٹیم کے پاس درست کامبینیشن ہو اور یہ کہ وہ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں جانے سے پہلے صحیح وقت پر فارم میں ہوں۔

انھوں نے کپتان روہت شرما کے ساتھ اعتماد کا رشتہ استوار کیا۔ اور ان کی حکمت عملی اس ٹورنامنٹ میں اپنے سٹریٹجک فیصلوں اور جرات مندانہ بیٹنگ کی وجہ سے خبروں میں رہی ہے۔

ٹیم کو بہتر کرنے کے لیے دراوڈ کی ٹائمنگ اس سے بہتر نہیں ہو سکتی تھی۔ ورلڈ کپ سے قبل انڈیا نے پاکستان اور سری لنکا کو بری طرح شکست دے کر ایشیا کپ جیت لیا۔

اور اب تک وہ ورلڈ کپ کے جاری ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست ہیں۔ اب اس لیجنڈ کے سامنے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے صرف آخری رکاوٹ رہ گئی ہے جو بطور کھلاڑی اب تک ان کی دسترست سے باہر رہی ہے۔

وہ یقیناً ٹرافی اٹھانے کے لیے بے تاب ہوں گے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ میچ شروع ہونے کے بعد اور غالباً میچ ختم ہونے کے بعد بھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کریں گے۔

ایسے ہی ہیں ونٹیج راہل دراوڈ جو خاموشی سے اپنا کام کرنا پسند کرتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.